انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت یزید ؓبن ابی سفیان نام ونسب یزید نام، ابو خالد کنیت،خیر لقب،نسب نامہ یہ ہے، یزید بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشی اموی،ماں کانام زینب تھا، یزید حضرت امیر معاویہؓ کے سوتیلے بھائی اورابو سفیان کی اولاد میں سب سے زیادہ نیک اورسلیم الطبع تھے اس لیے یزید الخیر لقب ہوگیا تھا۔ اسلام و غزوات فتحِ مکہ میں اپنے اہل خاندان کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے،غزوات میں سب سے اول حنین میں شرکت کی،آنحضرتﷺ نے حنین کے مالِ غنیمت سے چالیس اوقیہ (سونا یا چاندی) اورسو اونٹ مرحمت فرمائے (ابن سعد،جلد۷،ق۲،صفحہ:۱۲۷) اوربنی فراس کا امیر بنایا۔ (اصابہ:۶۳۴۱) شام کی فوج کشی اورامارت یزید نہایت شجاع اوربہادر تھے،لیکن بہت آخر میں اسلام لائے تھے،اس لیے عہد نبوی میں انہیں کار گذاری دکھانے کے کم مواقع ملے،عہد صدیقی سے ان کے کارناموں کا آغاز ہوتا ہے؛چنانچہ جب شام پر فوج کشی ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے یزید کو شرف امارت عطا کیا اورروانگی کے وقت کچھ دور تک پیادہ پارخصت کرنے کے لیے نکلے، یزید نے خلیفۂ رسول اللہ کو پیادہ دیکھ کر عرض کیا: یا آپ بھی سوار ہوجایے یا مجھے پیدل چلنے کی اجازت مرحمت ہو،فرمایا نہ مجھ کو سوار ہونے کی ضرورت ہے نہ تم کو اترنے کی میں جتنے قدم رکھتا ہوں ان کو راہِ خدا میں شمار کرتا ہوں، رخصتی کے وقت فرمایا،تم کو شام میں تارک الدنیا راہب ملیں گے،ان سے اوران کی رہبانیت سے تعرض نہ کرنا، تم کو جنگ میں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑیگا جو بیچ سےسر منڈاتے ہیں اسی حصہ پر تلوار مارنا میں تم کو دس نصیحتیں کرتا ہوں ان کا ہمیشہ خیال رکھنا: عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نہ مارنا، پھلے پھولے درختوں کو نہ کاٹنا،آبادیاں نہ ویران کرنا ،بکری اوراونٹ کھانے کے علاوہ بے کار نہ ذبح کرنا،درخت نہ جلانا،پانی میں نہ ڈبانا، خیانت اوربزدلی نہ کرنا۔ (موطا امام مالک کتاب الجہاد وباب النہی عن قتال النساء والولدان فی الغزو) ان زرین ہدایات کو لے کر یزید شام روانہ ہوئے اور ارض شام میں پہنچنے کے بعد سب سے پہلے خالد ؓبن ولید کے ساتھ بصریٰ پر حملہ آور ہوئے،بصریٰ والوں نے صلح کرلی ،بصریٰ کے بعد فلسطین کا رخ کیا،اجنادین میں رومیوں کا مقابلہ ہوا، ان کو شکست دی (اسد الغابہ :۵/۱۱۲) اردن کی فتح کے بعد حضرت ابو عبیدہ ؓبن الجراح نے یزید کو ساحلی علاقہ کی طرف روانہ کیا،انہوں نے عمرو بن العاص کے ساتھ مل کر اس کو زیر نگیں کیا۔ دمشق کے محاصرہ میں شہر پناہ کے ہر ہر حصہ پر علیحدہ علیحدہ افسر متعین تھے؛چنانچہ باب صفیر سے لیکر باب کیسان تک کی نگرانی یزید کے سپرد تھی،دمشق کی فتح کے بعد جب ابو عبیدہؓ نے حمص کا ارادہ کیا،تو یزید کو دمشق پر اپنے قائم مقام کی حیثیت سے چھوڑ گئے۔ اس سلسلہ کی مشہور جنگ یرموک میں یزید ایک حصہ فوج کے افسر تھے،حضرت ابو عبیدہؓ کی وفات کےبعد ۱۸ ھ میں حضرت عمرؓ نے یزید کو فلسطین کا حاکم بنایا اور قیاریہ کی مہم ان کے سپرد کی مسلمان اس وقت قیاریہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے،یزید حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق سترہ ہزار فوج لے کر ان کی مدد کو قیاریہ پہنچے اور اپنے بھائی معاویہ کو اپنا قائم مقام بناکر پھر فلسطین لوٹ آئے،امیر معاویہؓ نے یہ مہم سر کرکے ان کے پاس اطلاع بھیجی، انہوں نے دارالخلافہ اطلاع دی (فتوح البلدان بلاذری:۱۴۷) غرض یزید شام کی فتوحات میں شروع سے آخر تک امتیازی حیثیت سے شریک رہے اوران کی شجاعت و تجربہ سے فتوحات میں بڑی قیمتی مدد ملی، ان سب کی تفصیلات خالدؓ بن ولید اورعمرو ؓبن العاص کے حالات میں لکھی جاچکی ہیں،اس لیے اس موقع پر خاص واقعات کے سوا انہیں قلم انداز کردیا گیا۔ وفات ۱۸ھ کے آخر یا ۱۹ھ کے شروع میں طاعون کی وبا میں ارض شام میں انتقال کیا۔