انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کی مجالس علمِ حدیث یہ بات توطے ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اپنے زمانہ کے بہت بڑے فقیہ تھے، حضرت ابن مبارکؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا تھا: "افقه الناس ابوحنیفۃ مارأیت فی الفقہ مثلہ"۱؎۔ جہاں آپ اتنے بڑے فقیہ تھے وہیں آپ کو حدیث پر بھی بڑا درک حاصل تھا، علامہ ذہبی علیہ الرحمۃ نے آپ کوحفاظِ حدیث میں سے شمار کیا ہے۔ آپ نے ایسے مقام پر آنکھ کھولی، جوحدیث وفقہ کا مرکز تھا، جس کوشہرکوفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کوفہ اس زمانہ میں علم حدیث کا مرکز تھا، وہاں کبارِمحدثین کی ایک بڑی جماعت تھی، ابن عیینہ، سفیان ثوری، حفص بن غیاث، اعمش، وکیع اور ابن مبارک وغیرھم جیسے اساطین علم حدیث وہاں مقیم تھے، امام صاحب علیہ الرحمۃ کوفہ کی تمام احادیث کوجمع فرمایا۲؎، علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کی جلالتِ قدر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ باتفاق امام مجتہد ہیں اور مجتہد کی شرائط میں یہ شرط لازمی ہے کہ اس کوعلم حدیث میں پوری بصیرت حاصل ہو؛ اگرعلم حدیث کے اندر امام ابوحنیفہؒ میں کوئی کمزوری ہوتی توان کومجتہد کیسے مانا جاسکتا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء حدیث نے ان کے علم حدیث میں بلند مقام کا پوری طرح اعتراف کیا ہے۳؎۔ اب ہم ذیل میں ایسے واقعات اور ان مجالس کا ذکر کریں گے جن سے یہ معلوم ہوگا کہ امام صاحب کوعلم حدیث میں کتنا درک حاصل تھا اور ان کی کیسی محدثانہ شان تھی۔ (۱)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۰،۱۱۔ (۲)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۲۔ (۳)درسِ ترمذی مقدمہ:۱/۹۱، مکتبہ رشیدیہ سہارن پور، یوپی۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی امام اوزاعیؒ سے گفتگو ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے دارالحناطین میں امام اعظم اور امام اوزاعی جمع ہوگئے اور وہاں رفع یدین کا مسئلہ زیربحث آگیا توامام اوزاعیؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے فرمایا: "مابکم اوفی روایۃ مالکم یاأہل العراق! لاترفعون ایدیکم فی الصلوۃ عندالرکوع وعندالرفع منہ؟"۔ آپ حضرات نماز میں رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کیوں نہیں کرتے ہیں؟۔ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: "لاجل انہ لم یصح عن رسول اللہﷺ فیہ شیئ ای لم یصح سالماً من المعارض"۔ کیونکہ آپؐ ﷺ سے کوئی ایسی صحیح حدیث مروی نہیں ہے کہ اس کے معارض کوئی حدیث نہ ہو۔ اس پر امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "کیف لایصح؟ وقد حدثنی الزھری عن سالم عن ابیہ عن رسول اللہﷺ انہ کان یرفع یدیہ اذاافتتح الصلوٰۃ وعند الرکوع وعند الرفع منہ"۔ صحیح حدیث کیسے موجود نہیں ہے؟ امام زھریؒ نے حضرت سالم سے اور وہ اپنے ابا حضرت ابن عمر سے اور وہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع یدین کرتے تھے۔ اِس پر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "وحدثنا حماد عن ابراہیم عن علقمۃ عن ابن مسعود ان رسول اللہﷺ کان لایرفع یدیہ الاعند افتتاح الصلوٰۃ ولایعود لشیئی من ذلک"۔ حضرت حماد نے ابراہیم نخعی سے اور وہ حضرت علقمہ سے اور وہ حضرت ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ تکبیرتحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے اس کے بعد پھر یہ عمل نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر امام اوزاعیؒ نے اعتراض کیا، ان کے اعتراض کا منشاء یہ تھا کہ میری سند عالیٰ ہے؛ کیونکہ میری سند میں صحابی تک صرف دوواسطے ہیں، زہری اور سالم کا، جب کہ آپ کی سند میں صحابی تک تین واسطے ہیں، حماد، ابراہیم اور علقمہ کا؛ لہٰذا علوسند کی بناء پر میری روایت راجح ہے، اس پر امام ابوحنیفہ نے جواب دیا کہ حماد، ابن شہاب زھری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم نخعی، سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور علقمہ کا درجہ فقہ میں حضرت ابن عمرؓ سے کم نہیں ہے؛ اگرچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کوصحابی کا شرف وفضل حاصل ہے اور عبداللہ ابن مسعودؓ کا کیا کہنا، وہ توعبداللہ ابن مسعود ہی ہیں، اس پر امام اوزاعیؒ خاموش ہوگئے۴؎۔ (۴)معارف السنن:۲/۴۹۹،۵۰۰۔ مقدمہ اعلاء السنن:۲/۲۴۶۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور علماء بغداد کے مابین گفتگو ایک مرتبہ حضرت امام ابوحنیفہ بغداد تشریف لائے تووہاں کے علماء نے آپ سے متعدد سوالات کئے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ رطب کوتمر کے عوض فروخت کرنا جائز ہے یانہیں؟ امام صاحب نے فرمایا تماثل کے ساتھ جائز ہے، علماء نے سوال کیا کہ جائز ہونے کی کیا دلیل ہے؟ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مشہور حدیث پڑھ کر سنادی: "عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَاكَانَ يَدًا بِيَدٍ"۵؎۔ یعنی تمر کوتمر کے ساتھ برابر کرکے بیع کرنا جائز ہے، کمی زیادتی ربا ہے؛ پھرامام صاحب نے ان علماء سے سوال کیا کہ آپ حضرات یہ بتائیں کہ رطب جنس تمر سے ہے یااس کے خلاف جنس ہے؛ اگرآپ کا جواب یہ ہے کہ تمر جنس رطب سے ہے تواس صورت میں یہی حدیث اس کے جواز پر دلالت کررہی ہے؛ اس لیے کہ آپﷺ نے اس میں فرمایا: "التَّمْرُ بِالتَّمْرِ" یعنی تمر کوتمر کے بدلہ تماثلاً بیچنا جائز ہے۔ اور اگرآپ کا جواب یہ ہے کہ تمررطب کی جنس سے نہیں ہے؛ بلکہ خلاف جنس سے ہے توپھراسی حدیث کے آخری جزؤ سے جواز ثابت ہورہا ہے، اس لیے کہ اس حدیث کے آحر میں آپﷺ نے فرمایا: "فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الْأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَاكَانَ يَدًا بِيَدٍ"۔ لہٰذا اگرتم رطب ہے توحدیث کے اوّل حصے سے جواز ثابت ہورہا ہے اوراگر تمررطب نہیں ہے توپھر اسی حدیث کے آحری جزء سے کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنے کا جواز ثابت ہورہا ہے؛ البتہ اتنا فرق رہے گا کہ پہلی صورت میں تماثل کی شرط کے ساتھ بیع جائز ہوگی اور دوسری صورت میں تفاضل کے ساتھ بھی بیع جائز ہوگی؛ بشرطیکہ ادھار معاملہ نہ ہو؛ لہٰذا عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ پھرامام صاحبؒ نے فرمایا کہ رطب اور تمر کی جنس ایک ہے؛ لہٰذا "التَّمْرُ بِالتَّمْرِ" کے حکم میں داخل ہے،دلیل اس کی یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی خیبر میں حضورﷺ کے لیے رطب کھجور لائے، جب حضوراقدس نے اس کو تناول فرمایا تو وہ آپ کوبہت پسند آئے، آپﷺ نے ان صحابیؓ سے پوچھا: "أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا"۶؎۔ کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟۔ اس حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے رطب پر لفظ تمر کا اطلاق فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ تمر اور رطب ایک ہی چیز ہے؛ لہٰذا ان دونوں کا آپس میں تبادلہ کرنا تماثل کے ساتھ جائز ہے، تفاضل کے ساتھ جائز نہیں۷؎۔ (۵)مسلم، كِتَاب الْمُسَاقَاةِ،بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا،حدیث نمبر:۲۹۷۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ مشکوٰہ شریف:۲۴۴۔ (۶)بخاری، كِتَاب الْبُيُوعِ،بَاب إِذَاأَرَادَ بَيْعَ تَمْرٍ بِتَمْرٍ خَيْرٍ مِنْهُ،حدیث نمبر:۲۰۵۰، شاملہ، موقع الإسلام۔ مسلم شریف:۲/۲۶۔ مشکوٰۃ:۲۴۵۔ (۷)البنایۃ فی شرح الہدایہ:۷/۴۸۴، علامہ عینی، بیروت۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام باقررحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ جواپنے زمانے کے محدث، فقیہ اور بڑے متقی تھے، ان سے امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کی ملاقات کا تذکرہ تاریخ نویسوں نے کیا ہے، مورخین کا کہنا ہے کہ ایک بار امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ مدینہ گئے توامام باقرؒ کی حدمت میں حاضر ہوئے، ان کے ایک ساتھی نے تعاروف کرایا کہ یہ امام ابوحنیفہ ہیں، انھوں نے امام صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا: ہاں! تم ہی قیاس کی بناء پرہمارے دادا کی حدیثوں کی مخالفت کرتے ہو؟ امام صاحب نے نہایت ادب سے کہا: العیاذ باللہ حدیث کی کون مخالفت کرسکتا ہے!! آپ تشریفر رکھیں توکچھ عرض کروں؛ پھرمندرجہ ذیل گفتگو ہوئی: ابوحنیفہ : مرد ضعیف ہے یاعورت؟۔ امام باقر : عورت۔ ابوحنیفہ : وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یاعورت کا؟۔ امام باقر : مرد کا۔ ابوحنیفہ : اگرمیں قیاس کرتا توکہتا کہ عورت کوزیادہ حصہ دیا جائے؛ کیونکہ ضعیف کوظاہر قیاس کی بناپر زیادہ ملنا چاہئے۔ پھر پوچھا : نماز افضل ہے یاروزہ؟۔ امام باقر : نماز۔ ابوحنیفہ : اس اعتبار سے حائضہ عورت پر نماز کی قضاء واجب ہونی چاہئے نہ کہ روزہ کی؛ حالانکہ میں روزہ کی قضاء کا فتویٰ دیتا ہوں۔ امام باقر رحمۃ اللہ علیہ اس قدر خوش ہوئے کہ اُٹھ کر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیشانی چوم لی۸؎۔ اس طرح کی کئی مجلسیں ہیں، جن میں امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ نے حدیث پاک کے متعلق گفتگو کی ہیں؛ بلکہ آپؒ جہاں کہیں تشریف لے جاتے تومحدثین کی ایک بڑی جماعت آپ کوگھیرلیتی اور برابر آپ سے حدیث کے تعلق سے سوال کرتی رہتی، حضرت عاصم نبیل فرماتے ہیں: "مکہ میں ہم امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے پاس تھے، آپ کے یہاں محدثین اور فقہاء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، وہ حضرات بڑی دیر سے آپ سے سوالات کررہے تھے، اس اژدہام میں کافی دیر سے گھیرے رہنے کی وجہ سے آپ کوگرانی ہوئی، اس لیے آپؒ نے فرمایا کہ کوئی ہے جوہمارے میزبان کواس کی اطلاع دے تاکہ مجھے کچھ راحت ملے؟ حضرت عاصمؒ کہتے ہیں کہ میں نے کہا، میں جانے والا ہوں؛ لیکن مجھے چند سوال دریافت کرنے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان سوالات کے جواب آپ سے دریافت کرلوں پھر جاؤں، امام صاحب نے فرمایا: ٹھیک ہے، قریب ہوکر سوال کرو، عاصم کہتے ہیں کہ میں قریب ہوا، میں نے بھی سوالات کئے اور میرے علاوہ دوسرے لوگ بھی سوا ل کرتے رہے اور امام صاحب ان سب کا جواب دیتے رہے اور مجھے بھول گئے؛ پھرلوگوں کے سوال کا سلسلہ بڑھتا ہی گیا"۔ یہ سارے واقعات اس بات پر واضح طور سے دال ہیں کہ آپ کوحدیث اور رجال حدیث کے باب میں غیرمعمولی درک تھا اور اس کا علم آپ کے معاصر محدثین کوبھی تھا؛ یہی وجہ تھی کہ جہاں کہیں ایسا موقع ملتا، آپ کے گرد جمع ہوجاتے اور حدیث کے تعلق سے اپنی تشنگی آپ سے سوالات کرکے دور کیا کرتے تھے۹؎۔ (۸)مقدمہ مسندامام اعظم:۲۳، نئی دہلی۔ (۹)الجوھرۃ المضیۃ:۲/۲۵۲۔