انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** راوی کے بنیادی اوصاف راوی کے بنیادی اوصاف یہی ہیں کہ اس کی ذات کے بارے میں اعتماد ہوکہ وہ یاد رکھنے میں لائق وثوق ہے، اس کا ضبط قابل اعتماد ہے اور اس کی دیانت داری (امانت) پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے راوی کے اوصاف پر ایک نہایت جامع اور وجیز (وجیز کہتے ہیں جلدی سے سمجھ میں آنے والےمختصر کلام کو) بحث تحریرفرمائی ہے؛ لکھتے ہیں: "راوی کے وہ تمام اوصاف جوبلحاظ روایت اس کی قبولیت کا معیار بن سکتے ہیں دواصولی صفات کی طرف راجع ہوتے ہیں، عدالت اور ضبط؛ اگرروایت کے راوی عادل ہوں جن میں عدالت کا فقدان یانقصان نہ ہو اور ادھر وہ ضابط ہوں جن میں حفظ وضبط اور تیقظ وبیداری کانقصان وفقدان نہ ہو اور قلت عدالت وضبط سے جوکمزوریاں راوی کولاحق ہوتی ہیں ان سے راوی پاک ہوں اور ساتھ ہی سندمسلسل اور متصل ہو تووہ روایت صحیح لذاتہ کہلائے گی، جواوصاف راوی کے لحاظ سے روایت کااعلی مرتبہ ہے؛ کیونکہ اس میں عدالت وضبط مکمل طریق پر موجود ہے، جوراویوں کوثقہ اور معتبر ثابت کرتا ہے؛ اس لیے اس دائرہ میں حدیث کی یہ قسم بنیادی اور اساسی کہلائے گی، اس کے بعدجوقسم بھی پیدا ہوگی وہ ان اوصاف کی کمی بیشی اور نقصان یافقدان سے پیدا ہوگی، اس لیے وہ اسی خبر کی فرع کہلائے گی، مثلاً اگرراوی ساقط العدالت ہوتو اس نقصانِ عدالت یافقدانِ عدالت سے پانچ اُصولی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں؛ جنھیں مطاعن حدیث کہا جاتا ہے: (۱)کذب (۲)تہمت کذب (۳)فسق (۴)جہالت (۵)بدعت: یعنی راوی کاذب ہویاکذب کی تہمت لیئے ہوئے ہو یافاسق ہو یاجاہل ونادان ہو یابدعتی ہو توکہا جائے گا کہ وہ عادل نہیں، اس لیے اس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں؛ اسی طرح اگرراوی ضابط نہ ہوتو اس نقصان حفظ یافقدانِ حافظہ سے بھی پانچ ہی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں جوروایت کوبے اعتبار بنادیتی ہیں: (۱)فرطِ غفلت (۲)کثرتِ غلط (۳)مخالفتِ ثقات (۴)وہم (۵)سوء حفظ: یعنی راوی غفلت شعار اورلااُبالی ہو، جس میں تیقظ اور احتیاط اور بیدار مغزی نہ ہو یاکثیرالاغلاط ہو یاثقہ لوگوں سے الگ نئی اور مخالف بات کہتا ہو یاوہمی ہو اسے خود ہی اپنی روایت میں شبہ پڑجاتا ہو یاحافظہ خراب ہو، بات بھول جاتا ہو توکہا جائے گا کہ یہ راوی ضبط وحفظ میں مضبوط نہیں، اس لیے اس کی روایت کا کچھ اعتبار نہیں؛ لیکن اس نقصانِ عدالت وضبط یاان دس مطاعن کے درجات ومراتب ہیں؛ اگران صفاتِ عدل وضبط میں کوئی معمولی سی کمی ہو؛ مگرروایت کے اور طریقوں اور سندوں کی کثرت سے ان کی کمزوریوں کی تلافی ہوجائے تواس حدیث کوصحیح لغیرہ کہیں گے؛ اگریہ تلافی اور جبر نقصان نہ ہو اور وہ معمولی کمزوریاں بدستور قائم رہ جائیں توحدیث حسن لذاتہ کہلائے گی؛ اگراس حالت میں بھی کثرتِ طرق سے تلافیٔ نقصان ہوجائے توحدیث حسن لغیرہ کہلائے گی اور اسی نسبت سے اُن کے اعتبار اور حجیت کا درجہ قائم ہوگا؛ پس اوصاف رواۃ کے لحاظ سے حدیث کی چار اساسی قسمیں نکل آئیں: (۱)صحیح لذاتہ (۲)صحیح لغیرہ (۳)حسن لذاتہ (۴)حسن لغیرہ اور ان میں بھی بنیادی قسم صرف صحیح لذاتہ ہے جواپنے دائرہ میں سب سے اُونچی قسم ہے"۔ (فضل الباری، مولانا شبیراحمدعثمانیؒ:۱/۹۸۔ مقدمہ ، از مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ) بہرِحال وہ قواعد جن پر حدیث قبول کی گئی ہے کچھ یونہی مرتب نہیں ہوگئے؛ بلکہ ان میں قرآن کریم اور اُصولِ فطرت پوری ثقاہت سے کار فرما رہے ہیں، یہی قواعد محدثین کی اساس تھے اور انہیں پرعلم حدیث کا ذخیرہ ترتیب پاتا رہا اور اہلِ فن میں قبول بھی ہوتا گیا۔ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ نے بھی اس پر زور دیا کہ راوی کے بارے میں دیکھا جائے کہ اس کا ضبط اپنے اوپر کتنا ہے اور اسکی دیانت وامانت کیسی ہے، حضرت عبداللہ بن عمرو (۶۷ھ) بیان کررہے تھے کہ آخری زمانہ میں شَر پھیل جائےگا، آپ سے پوچھا گیا کہ اس دور میں ہم حدیثِ رسولﷺ کے بارے میں کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: "مااخذتموہ عمن تأمنونہ علی نفسہ ودینہ فاعقلوہ وعلیکم بالقرآن فتعلموہ وعلّموہ ابناءکم فانکم عنہ تسئلون وبہ تجزون وکفی بہ واعظاً لمن عقل"۔ (المحرر الوجیز للقاضی عبدالحق الاندلسی(۵۴۸ھ):۱/۱۱) ترجمہ: جوحدیث تم اس راوی سے لوجسے تم اپنے میں سنبھلے پاؤ اور اسے دیانتدار سمجھوتواس کا اعتبار کرلو اور قرآن کولازم پکڑو، اسے سیکھو اور اپنے بچوں کوسکھاؤ اوراس کے بارے میں تم قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے اور اسی پر تمھیں جزا ملے گی اور سمجھ دار کے لیے اسی میں کافی مصلحت ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ قبول روایت میں اصل الاصول یہی ہے کہ راوی کی ذات اور دیانت دونوں قابلِ بھروسہ ہوں، نہ اتنا کمزور ہو کہ یاد نہ رکھ سکے نہ اتنا عام کہ اس کی دیانت مشتبہ ہو، روایت کے لائق اعتماد نہ ہونے پر بحث کرتے ہوئے علامہ محمدبن جریر طبری (۳۱۰ھ) نے بھی صفاتِ جبرئیل کا ذکر کیا ہے: جبرئیل اللہ تعالیٰ کے ہاں، اس کے پیغام میں اس کی روایت کرنے میں اور ان تمام کاموں میں جوان کے سپرد کیے گئے لائقِ اعتماد ہیں۔ چھٹی صدی کے مشہور شیعی مفسرالطبرسی (۵۴۸ھ) نے بھی حضرت جبرئیل علیہ السلام کے صاحب قوت ہونے پر بحث کرتے ہوئے اصول روایت میں جبرئیلی صفات سے استدلال کیا ہے۔ (تفسیرابن جریر:۳۰/۵۱۔ مجمع البیان:۵/۴۴۶) یہ صفات راوی کا اصولی بیان ہے؛ چونکہ ان تمام مواقع میں حضرت جبرئیل امین اور حضور نبیٔ کریمﷺ کے ہی راویت لینے اور دینے کا تذکرہ ہے، اس لیئے ان تمام مواقع پر خدائی حفاظت اور شانِ عصمت بھی کارفرما ہے اور ان کی روایت اپنی ہرادا میں غلطی اوربھول سے پاک ہے؛ لیکن جہاں تک دوسرے ثقہ راویوں کاتعلق ہے ان سے بعض اوقات غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں جن کا جبر دوسرے راویوں کی روایت سے کرلیا جاتا ہے اور یہ بات اہلِ فن کے نزدیک ان کی ثقاہت کوکمزور نہیں کرتی، حضرت مولانا سیدانور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: "ومن ظن ان الثقات براء من الاغلاط فلم یسلک سبیل السداد وانما المعصوم من عصمہ اللہ والجاھل لایفرق بین اغلاط الرواۃ وبین اخبار الانبیاء علیہم السلام فیحمل خبطھم واغلاطہم علی رقاب الرسل علیہم الصلوٰۃ والسلام مااضلہ ومااجھلہ"۔ (فیض الباری:۴/۸۶) ترجمہ:اورجس نے یہ گمان کیا کہ ثقہ راوی غلطیوں سے کلیۃً مبراہیں، وہ صحیح رستے پر نہیں چلا، معصوم وہی ہے جسے الہٰی عصمت حاصل ہو، جاہل لوگ راویوں کی غلطیوں اور انبیاءکرام کی خبروں میں فرق نہیں کرتے، راویوں کے وہم اور اغلاط پیغمبروں کے ذمہ لگادیتے ہیں، کتنی بڑی گمراہی اور کتنی بڑی جہالت ہے۔ صفاتِ جبرئیلی کے ذکر میں صرف اُصول اعتماد مذکور ہیں، اللہ رب العزت سے ایک ہی خبرلانے والا اور اس سے ایک ہی خبر لینے والا تھا؛ سویہاں خبرِواحد کی بحث نہ تھی، جبرئیل امین اور حضورسیدالمرسلینﷺ دونوں معصوم تھے، جہاں تثبت اور عصمت پوری قوت اورتحدّی سے کارفرما ہوں، وہاں خبرِواحد اور خبرِ متواتر دونوں برابر ہیں، ایک معصوم کی بات بھی یقین کا فائدہ دیتی ہے، دومعصوموں کی بات بھی اسی یقین کوقائم کرتی ہے اور دوسے زیادہ معصوموں کی بات بھی اسی یقین تک پہنچاتی ہے؛ سوخدائی حفاظت کے ساتھ خبرِواحد اور خبرِمتواتر دونوں میں کوئی فرق نہیں رہتا، ہاں!جہاں خدائی حفاظت کا وعدہ نہ ہو، وہاں کثرۃِ رواۃ سے روایت بے شک پختہ ہوجاتی ہے، قرآنِ کریم نے خبرِواحد کی قبولیت کا ایک دوسری جگہ ذکر فرمایا ہے اور شرط لگائی ہے کہ راوی فسق سے مجروح نہ ہو اوراگر ایسی جرح موجود ہوپھربھی روایت کلیۃً رد کرنے کے لائق نہیں؛ بلکہ اور ذرائع اور قرائن سے اس کی تحقیق کرلی جائے۔