انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت خبابؓ بن ارت نام ونسب خباب نام،ابو عبداللہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے،خباب بن ارت بن جندلہ ابن سعد بن حزیمہ بن کعب بن سعد بن زید مناۃ بن تمیم،زمانہ جاہلیت میں غلام بناکر مکہ میں فروخت کیے گئے۔ (اسد الغابہ:۲/۱۰۶) اسلام حضرت خبابؓ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو دعوت اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں یعنی زید بن ارقم کے گھر میں آنحضرتﷺ کے پناہ گزین ہونے کے قبل مشرف باسلام ہوئے،(ابن سعد،جلد۳،قسم۱،صفحہ۱۱۶)اسلام لانے والوں میں ان کا چھٹا نمبر تھا، اسی لیے "سادس الاسلام" کہلاتے تھے۔ ابتلاوآزمائش ان کے اسلام قبول کرنے کے زمانہ میں اسلام کا اظہار تعزیرات مکہ میں ایسا شدید جرم تھا،جس کی سزا میں مال ودولت،ننگ وناموس ہر چیز سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا؛لیکن حضرت خبابؓ نے اس کی مطلق پر واہ نہ کی اور ببانگ دہل اپنے اسلام کا اظہار کیا،(اسد الغابہ:۲/۱۱۶) یہ غلام تھے،ان کا کوئی بھی حامی ومددگار نہ تھا، اس لیے کفار نے ان کو مشق ستم بنا لیا اوران کو بڑی درد ناک سزائیں دیتے تھے،ننگی پیٹھ ،دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاکر سینہ پر ایک بھاری پتھر رکھ کر ایک آدمی اوپر سے مسلتا اوروہ اس وقت تک ان انگاروں پر کباب ہوتے رہتے،جب تک خود زخموں کی رطوبت آگ کو نہ بجھاتی ،(ابن سعد،جلد۳،قسم۱:۱۱۷) لیکن اس سختی کے باوجود وہ زبان کلمہ حق سے نہ پھرتی ،رحمۃ اللعالمین اس کسمپرسی کی حالت میں تالیف قلب فرماتے تھے؛لیکن ان کا آقا اتنا سنگدل تھا کہ وہ ان کے لیے اتنا سہارا بھی نہ برداشت کرسکا اوراس کی سزا میں لوہا آگ میں تپاکر اس سے ان کا سرداغا،(اسد الغابہ:۲/۱۰۶) انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا کہ میرے لیے بارگاہِ ایزدی میں دعا فرمایےکہ وہ مجھ کو اس عذاب سے نجات دے،آپ نے دعا فرمائی کہ خدایا !خباب کی مددکر۔ جب اس جسمانی سزا سے بھی آتش انتقام سردنہ پڑی تو مالی نقصان پہنچانے کی کوشش کی،عاص بن وائل کے ذمہ ان کا قرض تھا، یہ جب تقاضا کرتے تو جواب دیتا کہ جب تک محمدﷺ کا ساتھ نہ چھوڑوگے،اس وقت تک نہیں مل سکتا،یہ جواب دیتے کہ جب تک مرکر دوبارہ زندہ نہ ہوگے میں محمد ﷺ سے الگ نہیں ہوسکتا وہ کہتا اچھا میں مرکر پھر زندہ ہوں گا اور مجھ کو مال اور اولاد ملے گی، اس وقت تمارا قرض دوں گا ،اس سے مسلمانوں کے اس عقیدے پر تعریض تھی کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملے گی اس واقعہ پر کلام اللہ کی یہ آیت نازل ہوئی: (بخاری کتاب التفسیر باب قولہ ونرثہ مایقول) أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا ،أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا ،كَلَّا سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا ،وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًا (مریم:۷۷،۷۹) اے محمدﷺ ! کیا تم نے اس شخص کے حال پر نظر کی جس نے ہماری آیات سے کفر کیا اورکہا کہ قیامت میں بھی مجھ کو مال اوراولاد ملے گی،کیا اس کو غیب کی خبر ہوگئی یا اس خدائے رحمن سے عہد لیا ہے ،ہر گز نہیں جو کچھ کہتا ہے ہم اس کو لکھ لیتے ہیں اوراس کے عذاب میں ڈھیل دیتے چلے جائیں گے اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے ہم وارث ہوں اور یہ تنہا ہمارے سامنے لایا جائے گا۔ ہجرت ومواخات خبابؓ مدتوں نہایت صبرواستقلال کے ساتھ یہ تمام مصیبتیں جھیلتے رہے،پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو ہجرت کرکے مدینہ آگئے،ہجرت بھی تکلیف ومصائب کے خوف سے نہ کی تھی؛بلکہ خاصۃ لوجہ اللہ کی تھی،چنانچہ کہاکرتے تھے کہ میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ خالصۃ لوجہ اللہ ہجرت کی تھی،(مسند ابن حنبل:۵/۱۰۹) مدینہ آنے کے بعد آنحضرتﷺ نے ان میں اورخراش بن صمہ غلام تمیم کے درمیان مواخات کرادی۔ (اسد الغابہ:۲/۱۰۷) غزوات مدینہ آنے کے بعد شروع سے آخر تک تمام غزوات میں شریک رہے۔ (ابن سعد،جز۳،ق۱:۱۷) خلافت فاروقی حضرت عمرانؓ کے فضائل کی وجہ سے ان کا بہت احترام کرتے تھے ایک دن یہ ان سے ملنے گئے تو حضرت عمرؓ نے ان کو اپنے گدھے پر بٹھایا اور لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان کے علاوہ صرف ایک شخص اور ہے جو اس پر بیٹھنے کا مستحق ہے،خبابؓ نے پوچھا امیر المومنین! وہ کون؟ فرمایا بلالؓ! آپ نے عرض کیا وہ میرے برابر کیوں کر مستحق ہوسکتے ہیں،مشرکین میں ان کے بہت سے مدد گار تھے؛لیکن میرا پوچھنے والا سوائے اللہ کے کوئی نہ تھا، اس کے بعد اپنا استحقاق بتاتے ہوئے اپنے مصائب کی داستان سنائی۔ (مستدرک حاکم،جلد۳،تذکرہ خباب بن ارت) علالت ووفات ۳۷ھ میں کوفہ میں بیمار پڑے، علاج سے افاقہ ہونے کے بجائے مرض اور بڑھ گیا، اس کی طوالت اور تکلیف سے گھبراکر کہنے لگے کہ اگر خدانے رسول اللہ ﷺ سے موت کی دعا کرنے کی ممانعت نہ کی ہوتی تو میں دعا کرتا جب حالت زیادہ نازک ہوئی اور کفن لایا گیا تو اسے دیکھ کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے فرمانے لگے،آہ! حمزہؓ کو پورا کفن بھی میسر نہ ہوا تھا، ایک معمولی چھوٹی سی چادر میں کفنائےگئے کہ اگر پیر ڈھانکا جاتا تو سر کھل جاتا اور سرڈھانکا جاتا تھا تو پاؤں کھل جاتے تھے ،آخر میں سرڈھانک کر اذخر(ایک قسم کی گھاس) سے پاؤں چھپائے گئے۔ کچھ لوگ عیادت کرنے کو آئے اورکہا ابو عبداللہ تم کو خوش ہونا چاہئے،کل تک اپنے ساتھیوں سے مل جاؤ گے،یہ سن کر رقت طاری ہوگئی،فرمایا کہ میں موت سے نہیں گھبراتا تم لوگوں نے ایسے لوگوں کو یاد دلایا جو اس دنیا سے اجرکے مستحق اٹھے مجھ کو خوف ہے کہ کہیں ثواب آخرت کے بدلہ میں مجھ کو یہ دنیا نہ ملی ہو۔ (ابن سعد،جز۳،ق۱،صفحہ:۱۱۸،حضرت حمزہؓ کی تکفین کا واقعہ بخاری کتاب المغازی اورمسند ابن حنبل:۵/۱۰۹، میں ہے) وصیت اوروفات کوفہ والے عموما ًاپنے مردوں کو شہر کے اندردفن کرتے تھے ؛لیکن انہوں نے وصیت کردی تھی کہ مجھ کو بیرون شہر دفن کرنا،اس وصیت کے مطابق ان کو شہر کے باہر دفن کیا گیا، آپ پہلے صحابی ہیں جن کی قبر سے کوفہ کے باہر ویرانہ کی آبادی ہوئی، وفات کے وقت بہتر سال کی عمر تھی، حضرت علی ؓ جنگ صفین سے واپس ہورہے تھے کہ خبابؓ کی وفات کی اطلاع ملی ؛چنانچہ آپ ہی نے نماز جنازہ پڑھائی، (مستدرک حاکم:۳/۳۸۲) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۳۷ھ میں وفات پائی، ایک روایت یہ بھی ہے کہ ۱۹ھ میں مدینہ میں پیوند خاک ہوئے اورحضرت عمرؓ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ ذریعہ ٔمعاش زمانہ جاہلیت میں اوراس کے بعد عرصہ تک تلواریں بنا کر کسب معاش کرتے رہے، اسلام کا ابتدائی زمانہ بہت عسرت میں بسر ہوا؛لیکن کچھ دنوں کے بعد اللہ نے فارغ البال کیا اور اتنی دولت ملی کہ پھر کسی پیشہ وغیرہ کی احتیاج باقی نہیں رہی،وفات کے وقت چالیس ہزار درہم پس انداز تھے۔ (ابن سعد،جلد۳،ق۱ تذکرہ خبابؓ) فضل وکمال خبابؓ کو آنحضرتﷺ کے اقوال واعمال کی بڑی جستجورہتی تھی اوروہ کبھی کبھی آنحضرت کی لا علمی میں رات رات بھر آپ کے طریقہ عبادت کو دیکھتے اورصبح کو اس کے متعلق استفسار کرتے، ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ساری رات نماز پڑھی،یہ پوری رات دیکھتے رہے اورصبح کو آکر پوچھا، فدیت بابی وامی،یا رسول اللہ؛ رات کو آپ نے ایسی نماز پڑھی کہ اس کے قبل کبھی نہ پڑھی تھی، فرمایا وہ بیم ورجا کی نماز تھی میں نے بارگاہ ایزدی میں تین چیزوں کی دعا کی تھی،دو مقبول ہوئیں اورایک نامقبول، ایک دعا یہ تھی کہ اللہ مسلمانوں کو اس عذاب سے نہ ہلاک کرے جس سے گذشتہ امتیں ہلاک ہوئیں اور میرے دشمنوں کو مجھ پر غالب نہ کرے،یہ دونوں دعائیں تو قبول ہوگئیں؛ لیکن تیسری قبول نہیں ہوئی۔ (مسند احمد بن حنبل:۵/۱۰۸) ان کی مرویات کی مجموعی تعداد ۳۳ ہےان میں سے ۳ متفق علیہ ہیں اور ۲ میں امام بخاری اورایک میں مسلم منفرد ہیں، (تہذیب الکمال تذکرہ خباب بن ارت) صحابہ اور تابعین میں جن بزرگوں نے ان سے حدیثیں سنی ہیں، ان کے نام حسب ذیل ہیں: آپ کے صاحبزادہ عبداللہ اورابو امامہ باہلی، عبداللہ بن شخیر، قیس ابن ابی حازم، مسروق بن اجدع اور علقمہ بن قیس وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب :۳/۱۳۳)