انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جہنم کے جلنے اوربھڑکنے کا ذکر جہنم کوشہوات اور خواہشات میں چھپایا گیا ہے (حدیث)حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لما خلق اللہ النار ارسل الیھا جبریل قال لہ اذھب فانظر الیھا والی مااعددت لاھلھا قال فنظر الیھا فاذا ھی یرکب بعضہا بعضا فرجع فقال وعزتک لایدخلھا احد سمع بھا فامر بھا فحفت بالشھوات ثم قال لہ اذھب فانظر الی مااعددت لاھلھا فیھا فذھب فنظر الیھا ورجع فقال وعزتک لقد خشیت ان لاینجو منھا احد الا دخلھا (ترجمہ)جب اللہ تعالی نے جہنم کو پیدا کیا توجبریل علیہ السلام کو اس کی طرف بھیجا اورفرمایا جاؤ اس کو بھی دیکھو اور میں نے جو دوزخیوں کے لئے عذاب تیار کیا ہے اس کو بھی حضورﷺ فرماتے ہیں جب جبریل علیہ السلام نے جہنم کو دیکھا تو اس کا ایک حصہ دوسرے پر سوار اورغالب تھا، پس یہ لوٹ آئے اور عرض کیا اے پروردگار مجھے آپ کی عزت کی قسم جو بھی اس کا حال سنے گا اس میں کبھی داخل نہیں ہوگا، پھر اللہ تعالی نے جہنم کو حکم فرمایا تو وہ شہوات،خواہشات اورلذات میں چھپ گئی،پھر دوبارہ حضرت جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا اب جاؤ اوردیکھو میں نے دوزخیوں کے لئے جہنم میں کیا تیارر کیا ہوا ہے، پس وہ گئے اور اس کو دیکھ کر پلٹ آئے اورکہا اے میرے پروردگار مجھے آپ کی عزت کی قسم بلاشبہ اب تو میں ڈرتا ہوں کہ اس سے کوئی بھی نجات نہیں پاسکے گا ؛بلکہ اس میں ضرور داخل ہوگا۔ (مسند احمد،ترمذی،ابوداؤد) دوزخ کے فرشتوں کے سربراہ مالک کی بد صورتی (حدیث)حضرت سمرہ بن جندبؓ حضورﷺ سے نقل فرماتے ہیں: ان ملکین اتیاہ فی المنام فذکررویاطویلۃ وفیھافَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ کَرِيهِ الْمَرْآةِ کَأَكْرَهِ مَا أَنْتَ رَاءٍ رَجُلًا مَرْآةً فَإِذَا هُوَ عِنْدَ نَارٍ لَهُ يَحُشُّهَا وَيَسْعَى حَوْلَهَا قَالَ قُلْتُ لَهُمَا مَا هَذَا قَالَ قَالَا لِي انْطَلِقْ انْطَلِق وفی آخر الحدیث قالا وَأَمَّا الرَّجُلُ الْکَرِيهُ الْمَرْآةِ الَّذِي عِنْدَ النَّارِ يَحُشُّهَا فَإِنَّهُ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّم (خرجہ البخاری ومسلم اولہ ولم یتمہ) (ترجمہ)دوفرشتے حضورﷺ کے پاس خواب میں آئے پھر آپ ﷺ نے ایک لمبا خواب بیان فرمایا جس میں یہ بھی تھا فرمایا پس میں چل پڑا تو ہم بد نما آدمی کے پاس آئے اتنا بد نما تونے نہیں دیکھا ہوگا جو آگ کے پاس تھا اوراسے جلا رہا تھا اور اس کے ارد گرد دوڑدھوپ میں مصروف تھا حضورﷺ فرماتے ہیں میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟انہوں نے کہا چلئے چلئے،اس حدیث کے آخر میں ہے،انہوں نے کہا وہ آدمی جس کو آپ ﷺ نے بد نما شکل میں آگ کے پاس اسے جلاتے ہوئے اوراس کے ارد گرد بھاگتے دوڑتے دیکھا ہے یہ جہنم کا منتظم مالک(فرشتہ)ہے۔ جہنم کے دو فرشتوں کاحال اسی حدیث کے دوسرے طریق میں ہے میں نے ایک درخت کو دیکھا کہ اگر اس کے نیچے بہت سی مخلوق جمع ہوجائے تو ان پر سایہ کردے اس کے نیچے دو آدمی(کی شکل میں فرشتے)تھے ان میں سے ایک آگ کو بھڑکا رہا تھا دوسرا ایندھن اکٹھا کرہا تھا میں نے پوچھا جن کو میں نے درخت کے نیچے دیکھا ہے یہ کون تھے تو(فرشتے نے)کہا یہ دونوں جہنم کے فرشتے تھے جو قیامت تک دشمنان خدا کے لئے جہنم کو گرم کرتے رہیں گے۔ ایک طویل حدیث میں ہے ثُمَّ أَقْصِرْ عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ حِينَئِذٍ تُسْجَرُ جَهَنَّمُ فَإِذَا أَقْبَلَ الْفَيْءُ فَصَلِّ (مسلم،باب اسلام عمرو بن عبسۃ،حدیث نمبر:۱۳۷۴) (ترجمہ) (حضرت عمرو بن عبسہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا) پھر(دوپہر کے وقت)نماز ادا کرنے سے رک جا کیونکہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے جب سایہ ڈھل جائے تب نماز پڑھ ۔ (مسلم شریف) (فائدہ)اس طرح کی ایک حدیث زوائد مسند احمد میں بھی ہے نیز اس مضمون کی دو احادیث یعقوب بن شیبہ اورامام احمد نے بھی روایت کی ہیں۔ (حدیث)حضرت ا بوہریرہؓ فرماتے ہیں حضورﷺ نے فرمایا: إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ (بخاری،باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر،حدیث نمبر:۵۰۲) (ترجمہ)جب گری سخت ہوجائے تو(ظہر کی)نماز کو ٹھنڈاکرکے(یعنی ٹھنڈے وقت میں جب گرمی کی تیزی ختم ہوجائے)پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی گرمی سے ہے۔ (فائدہ)ابو نعیمؒ نے من فیح جھنم کی بجائے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں من فیح جہنم اومن فیح ابواب جہنم یعنی یہ گرمی کی شدت یا تو جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے یا جہنم کے دروازوں کی گرمی کی وجہ سےہے۔ جمعہ کے روز دوزخ کو نہیں بھڑکایا جاتا حضرت ابوقتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ: حضورﷺ جمعہ کے علاوہ باقی ایام میں دوپہر میں نماز پڑھنے کو مکروہ فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ جمعہ کے علاوہ باقی ایام میں جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے۔ مگر اس حدیث کی سند منقطع ہونے کے ساتھ ضعیف بھی ہے۔ دوپہر کے علاوہ اوقات میں بھی جہنم بھڑکائی جاتی ہے کبھی جہنم دوپہر کے علاوہ اوقات میں بھی بھڑکائی جاتی ہے،جیسا کہ امام طبرانیؒ نے حضرت ابن ام مکتومؒ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمﷺ ایک مرتبہ صبح کے وقت (گھر سے) نکلے اور فرمایا جہنم بھڑکائی جاچکی ہے اور فتنے (قریب)آچکے ہیں (الحدیث)۔ (طبرانی) (حدیث)حضرت عمرؓ فرماتے ہیں حضرت جبریل علیہ السلام نے حضورﷺ سے کہا: جئتک حین امر اللہ عزوجل بمنافیخ النار فوضعت علی النار (ترجمہ)میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جب اللہ عزوجل نے پھونک مار کر آگ کو تیز کرنے والے پائپوں کا حکم کیا اور وہ جہنم پر(آگ دھونکنے کے لئے )رکھ دئے گئے۔ اولاد آدمؑ کی خطائیں جہنم کو دہکاتی ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ، وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ ، عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا أَحْضَرَتْ (التکویر:۱۲،۱۴) (ترجمہ)اورجب دوزخ بار بار دہکائی جائے اورجب جنت نزدیک کردی جائے ہر شخص جان لے گا جو اعمال لے کر آیا ہے۔ حضرت قتادہؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں جہنم کو اللہ تعالی کاغضب اورانسانوں کے گناہ دہکاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی بد اعمالیاں اللہ کے غضب کو تیز کرکے جہنم کے دہکانے کا سبب بنتی ہیں یہ ایسا ہے جیسے مومن بندوں کے نیک اعمال ذکرو تسبیح وغیرہ جنت کے محلات کی تعمیر اور درخت لگانے کا سبب بنتے ہیں اور ان کی ازواج وغیرہم کے حسن وجمال میں اضافہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح اہل جہنم کے اعمال بد جہنم کے بھڑکانے کا کام دیتے ہیں۔ دوزخیوں کے داخل ہونے کےبعد بھی جہنم کو بھڑکایا جائے گا اللہ تعالی کا فرمان ہے وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ عُمْيًا وَبُكْمًا وَصُمًّا مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيرًا (الاسراء:۹۸) (ترجمہ)اورہم قیامت کے روز ان (کفار)کو اندھا،گونگا،بہرہ کرکے منہ کے بل چلائیں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہے(جس کی یہ کیفیت ہوگی کہ) وہ جب ذرا دھیمی ہونے لگے گی اس وقت ہم ان کے لئے اورزیادہ بھڑکادیں گے۔ (فائدہ)مفسرین فرماتے ہیں جب بھی آگ ان کو جلا کر کوئلہ کرے گی اوراسے کھانے کو کچھ نہ ملے گا تو کفار کو دوبارہ تروتازہ کردیا جائے گا اوریہ ان کو پھر سے کھانا شروع کردے گی (منہ) دوزخ فاق نامی کنویں سے بھی بھڑکائی جائے گی حضرت عمروبن عبسہ ؓسے روایت کی گئی ہے کہ جہنم میں ایک کنواں ہے جس کا نام فاقہے اسی سے جہنم کو بار بار بھڑکایا جائے گا یعنی جہنم کو بھڑکانے کے لئے اس کنویں کو کھولا جائے گا جس سے ایسی آگ نکلے گی جو جہنم کو جلاتی رہے گی اورشعلے پیدا کرتی رہے گی۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی شعلہ زن آگ والی آیت پڑھنے پر کیفیت اللہ تعالی کا ارشاد ہے فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى (اللیل:۱۴) (اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں بھی آگ بھڑکے گی ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے رات کے وقت سورۃ اللیل پڑھی جب فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّىتک پہنچے تو روپڑے اس سے آگے پڑھنے کی طاقت نہ ہوئی تو دوبارہ اس سورۃ کو شروع کیا جب اس آیت پر پہنچے تب بھی آگے پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی ایسا دو مرتبہ یا تین مرتبہ ہوا پھر آپ نے کوئی اورسورۃ پڑھی۔