انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** نسخ کی حقیقت نسخ کے دولغوی معنی بتائے گئے ہیں، ختم کرنا "الابطال والازالۃ" اسی سے ماخوذ ہے "نسخت الشمس الظل" دھوپ نے سایہ کومٹادیا اور "نسخت الریح آثار القدم" ہوا نے نقشِ قدم مٹادئے، دوسرا معنی نقل وتحویل کا ہے؛ اسی سے ہے "نسخت الکتاب" میں نے کتاب نقل کی اور اسی سے ماخوذ ہے "تناسخ المواریث" وراثت کا ایک وارث سے دوسرے کی جانب منتقل ہوجانا، ابن حازم ہمدانی نے ان الفاظ میں نسخ کی لغوی تشریح کی ہے:"ابطال الشی اقامۃ آخرمقامہ" کسی چیزکوباطل کرنا اور اس کی جگہ دوسری شئی کورکھ دینا۔ (ارشاد الفحول:۱۸۳۔ تفسیر مظہری:۱/۱۹۲۔ الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۱۱ تا ۱۱۲۔ اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۳۳۔ معجم لغۃ الفقہا:۳۷۹۔ کتاب التعریفات:۳۰۹۔ البرھان فی علوم القرآن:۲/۲۹۔ کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار:۱/۵) اصطلاح میں کسی حکم کوایسے حکم کے ذریعہ ختم کردینا ہے جوبعد میں آیا ہو۔ (اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۲۳۔ التلویح علی التوضیح:۲/۳۱۔ کشف الاسرار:۳/۸۷۵۔ مسلم الثبوت:۲/۳۲۔ المستصفی:۱/۶۱۔ المدخل مذہب احمد:۹۳) "وھورفع الحکم بطریق شرعی متراخ عنہ" الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ مختلف اہلِ علم نے یہی بات لکھی ہے۔ نسخ کا وقوع اور اس کا امکان امتِ مسلمہ اس امرپرمتفق ہے کہ نسخ جائز ہے اور یہ نقل وعقل کے عین مطابق ہے، صرف ابومسلم اصفہانی معتزلی نسخ کے منکر ہیں، اسلام میں نسخ کا تصور یہ ہے کہ رب کائنات کواوّل ہی سے معلوم تھا کہ حالات بدلیں گے اور اس وقت یہ حکم مناسب نہیں ہوگا، یہ جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک حکم دیا اور جب اپنے علم کے مطابق حالات بدلے تواپنی قرارداد سابق کے مطابق حکم بھی بدل دیا، اس کی مثال ایسی ہے کہ مریض کی موجودہ حالت کودیھ کر حکیم یاڈاکٹرایک دواتجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے استعمال کے چند دنوں بعد مریض کا حال بدلے گا، اس وقت مجھ کودوسری دوا تجویز کرنی ہوگی، اس علم کے باوجود وہ پہلے دن ایک دوا تجویز کرتا ہے جواس دن کے مناسب ہے دودن کے بعد کیفیت کی تبدیلی پردوسری دواتجویز کرتا ہے، یہ عین مقتضائے حکمت ہے کہ خلل وتشویش سے بچانے کے لیے انسان کوجس وقت جتنی ضرورت ہو اسی قدر بتایا جائے اور آئندہ جواس کے مناسب حال ہو اس کے مطابق رہنمائی کی جائے؛ پس اللہ جل شانہ کے احکام میں اور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں صرف یہی آخری صورت ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے، ہرآنے والی نبوت اور ہرنازل ہونے والی کتاب نے پچھلی نبوت اور کتاب کے بہت سے احکام منسوخ کرکے جدید احکام جاری کئے ہیں؛ نیز ایک ہی نبوت وشریعت میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ کچھ عرصہ تک ایک حکم جاری رہا؛ پھربتقاضائے حکمتِ خداوندی اس کوبدل کردوسرا حکم نافذ کردیا گیا، حدیث اس پرصراحتاً وارد ہے: "لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّاتَنَاسَخَتْ"۔ (مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ، باب،حدیث نمبر:۵۲۶۸، شاملہ، موقع اإسلام) کوئی نبوت نہیں، جس کے احکام منسوخ نہ ہوئے ہوں، حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے نسخ کی مشروعیت کا انکار کیا ہے؛ انہوں نے اپنی کوتاہ نظری سے احکام خداوندی کے نسخ کودنیا میں ہونے والی تبدلی احکام اور تغیر آراء پر قیاس کیا ہے۔ (یہ خلاصہ مضمون الفاظ کے تغیر کے ساتھ ان کتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے: اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۴۵۔ الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۲۷۔ ارشاد الفحول:۱۸۵۔ التوضیح علی التلویح:۲/۳۲۔ مسلم الثبوت:۲/۳۷۔ کشف الاسرارر:۲/۸۷۷۔ المستصفی:۱۷۲) نسخ کے ارکان ارکانِ نسخ چار ہیں: (۱)اداتِ نسخ (۲)ناسخ (۳)منسوخ (۴)منسوخ عنہ۔ "اداتِ نسخ" سے وہ کلام مراد ہے، جوحکمِ سابق کے ختم ہونے پردلالت کرے "ناسخ" سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے؛ کیونکہ یہ بات خدا ہی کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی حکم کومنسوخ کرے یاباقی رکھے مجازاً جس حکم کے ذریعہ پہلے حکم کی تنسیح عمل میں آتی ہے، اس کوبھی ناسخ کہہ دیا جاتا ہے، اصل اصطلاح میں یہ حکم "منسوخ عنہ" ہے "منسوخ" ہے، جس پر عمل روک دیا گیا ہو۔ (المستصفیٰ:۲/۷۸۔ اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۳۵) نسخ کی شرطیں نسخ کے لیے کیا شرطیں ہیں؟ فقہاء نے اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور گیارہ شرطوں کا ذکرکیا ہے: (۱)منسوخ حکمِ شرعی ہو، محض عقلی نہ ہو (۲)نسخ فروعی احکام میں ہوگا، اعتقادات میں نہ ہوگا (۳)جس حکم کومنسوخ قرار دیا جارہا ہے اس کے جائز وناجائز ہونے اور مشروع وغیرمشروع ہونے کا احتمال ہو؛ ایسا نہ ہوکہ اس کا مشروع ہونا ہی متعین ہو، جیسے "ایمان" اور نہ ایسا حکم ہوکہ اس کا غیرمشروع ہونا ہی طے شدہ ہو، مثلاً "کفر" (۴)نسخ پرکوئی دلیل موجود ہو (۵)ناسخ ومنسوخ میں زمانہ اور وقت کے اعتبار سے فصل ہو اور ناسح منسوخ سے مؤخر ہو (۶)ناسخ ومنسوخ دونوں اپنے ذریعہ ثبوت کے اعتبار سے مساوی درجہ کے ہوں (۷)ناسخ ومنسوخ دونوں ایک دوسرے کے مغائر حکم چاہتے ہوں (۸)منسوخ کا علم مکلف کوہوچکا ہو؛ خواہ عمل کی نوبت آئی ہو یانہیں اور عمل خواہ کسی فرد نے کیا ہو یاجماعت نے (۹)جس حکم کومنسوخ کیا گیا ہے ابتداً جب وہ حکم آیا ہو تواس کوکسی وقت کے ساتھ مقید نہ کیا گیا ہو؛ بلکہ اپنے عموم واطلاق کے اعتبار سے وہ ہمیشہ کے لیے ہو (۱۰)یہ بھی ضروری ہے کہ جس حکم کومنسوخ قرار دیا جارہا ہو، شارع نے اس کی ابدیت اور دوام کی صراحت نہ کی ہو یادلالۃ بھی اس کی ابدیت ثابت نہ ہوتی ہو؛ چنانچہ وہ تمام احکام جن کوآپﷺ نے اپنی حالت پرچھوڑ کروفات پائی، آپﷺ کی وفات کے بعد دائمی اور ناقابل نسخ ہوں گے؛ کیونکہ "نص" کے لیے شارع کے حکم کے سوا کوئی اور چیز ناسخ نہیں بن سکتی۔ (التوضیح علی التلویح:۲/۵۱۱۔ حسامی:۸۷۔ نورالانوار:۲۱۲۔ الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۲۶۔ کشف الاسرار:۲/۸۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۴/۴۴۸۔ اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۵۳) (۱۱)پہلے حکم پرشارع کے حکم کی وجہ سے عمل ترک ہوا ہو، نہ کہ موت یآفاتِ سماوی کی وجہ سے۔ (ارشاد الفحول:۴/۴۴۸) نسخ کی قسمیں اصولین نے دوطرح سے نسخ کی تسیم کی ہے، ایک اس اعتبار سے کہ اس کا بدل موجود ہے یانہیں، دوسرے اس اعتبار سے کہ تلاوت بھی منسوخ ہوئی ہے یاصرف حکم؟۔ بدل کے پائے جاے اور نہ پائے جانے کے اعتبار سے نسخ کی دوقسمیں ہوں گی: (۱)نسخ بلابدل (۲)نسخ جس میں منسوخ حکم کا بدل موجود ہو، نسخ بلابدل سے مراد یہ ہے کہ سابق حکم کوختم کردیا جائے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم نہ لایا جائے، مثلاً حکم دیا گیا تھا کہ اگرحضوراکرمﷺ سے تنہائی میں گفتگو کرنی ہوتوپہلے صدقپ پیش کرو اور یہ واجب تھا؛ مگراس کوبغیر کسی بدل کے منسوخ کردیا گیا۔ "نسخ بہ بدل" سے مراد یہ ہے کہ حکم سابق کوختم کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم دیا جائے، اس کی تین صورتیں ہیں: (۱)حکم سابق بعد کے حکم کے مساوی ہو (۲)بعد کا حکم حکم سابق سے ہلکا اور خفیف ہو (۳)حکم سابق کے مقابلہ بعد کا حکم سحت ہو، پہلی اور دوسری صورت کے نسخ کے جواز پراکثر علماء اصول کا اتفاق ہے، تیسری صورت میں اختلاف ہے __________ پہلی صورت کی مثال بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی جانب رخ کرنے کا حکم ہے کہ یہ نص قراانی سے ثابت ہے (البقرۃ:۱۴۴) دوسری صورت کی مثال ہے "عدت وفات" جوآغازِ اسلام میں ایک سال تھی (البقرۃ:۲۴) بعد میں ۴/مہینے دس دن کردی گئی (البقرۃ:۲۳۴) ابتداءِ اسلام میں حکم تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے جمے رہیں (الانفال:۶۵) تیسری صورت کہ بعد کوآنے والا حکم بمقابلہ پہلے کے سخت ہو، میں عام فقہاء کے موقف کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ شروع میں کافروں سے جہاد فرض نہیں تھا، بعد کوفرض قرار دیا گیا __________ آغازاسلام میں روزہ اور فدیہ دونوں کااختیار تھا، بعد میں اختیار باقی نہ رہا اور صحت مند کے لیے روزہ متعین کردیا گیا، شراب کی حلت؛ پھرحرمت، نکاحِ متعہ کا ابتداء میں جواز اور بعد میں ممانعت، ابتداء میں صرف یومِ عاشورہ کے روزہ کی فرضیت اور بعد کوپورے ایک ماہ روزہ کا حکم وغیرہ، ان تمام احکام میں آسان حکم منسوخ کرکے کسی مصلحت کی وجہ سے مشکل حکم دیا گیا ہے۔ نسخ کی دوسری تقسیم کسی آیت کے حکم یااس کی تلاوت کے منسوخ کئے جانے کے اعتبار سے نسخ کی تین صورتیں ہیں: (۱)تلاوت منسوخ ہوجائے؛ لیکن حکم باقی رہے (۲)حکم منسوخ ہوجائے؛ لیکن تلاوت باقی رہے (۳)تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائے؛ انہیں تین صورتوں کو وسعت دے کربعضوں نے چھ صورتیں کی ہیں، پہلی صورت یعنی حکم کے منسوخ کئے جانے اور تلاوت کے باقی رکھے جانے کی آیت وصیت (البقرۃ:۱۸۰) ہے جس کے مطابق والدین اور اقراباء کے لیے وصیت کی جاتی تھی، بعد کویہ حکم حدیث "لَاوَصِيَّةَ لِوَارِثٍ" کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا، نسخ کی اس صورت میں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جس آیت کے ذریعہ سابقہ حکم کومنسوخ کیا جاتا ہے؛ خود اس کی تلاوت بھی باقی نہیں رکھی جاتی، مثلاً: زنا کی سزا ابتداءً موت تک عورت کوقید رکھنا تھا (البقرۃ:۱۴۴) بعد کوشادی شدہ زانیوں کے لیے سنگ ساری کی سزامقرر ہوئی اور کہا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں آیت رجم نازل ہوئی (الاحکام فاصول الاحکام، آمدی:۳/۱۵۴) لیکن خود اس آیت کی تلاوت کوجاری نہیں رکھا گیا۔ دوسری قسم کی مثال یہ ہے کہ پہلے عدتِ وفات ایک سال تھی (البقرۃ:۲۴۵) پھریہ حکم منسوخ ہوگیا اور چار ماہ دس دن عدتِ وفات رہ گئی (البقرۃ:۲۳۴) لیکن پہلی آیت کی تلاوت بھی باقی رکھی گئی، جمہور اس کے امکان وقوع پرمتفق ہیں؛ بلکہ بعضوں نے اس پراجماع کا بھی دعویٰ کیا ہے؛ لیکن حنفیہ اور حنابلہ میں سے بعض اہل اصول اس کے قائل نہیں ہیں۔ (ارشاد الفحول:۱۸۹) تیسری صورت کہ حکم بھی منسوخ ہوجائے اور تلاوت بھی، قرآن میں اس صورت کے پائے جانے میں اختلاف ہے، جولوگ اس کے پائے جانے کے قائل ہیں، ان کا خیال ہے کہ بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے اور یومِ عاشورہ کے روزہ فرض ہونے کا ذکر پہلے قرآن میں موجود تھا، جوبعد کوخانہ کعبہ کے قبلہ قرار دئے جانے اور رمضان کے روزہ کی فرضیت سے منسوخ ہوگیا؛ مگراکثر محققین کے نزدیک یہ منسوخ احکام حدیث ہی سے ثابت تھے، قرآن میں مذکور نہ تھے؛ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک حکم کسی دوسرے حکم کے لیے ناسخ ہوتا ہے اور پھروہ ناسخ حکم بھی منسوخ کردیا جاتا ہے، جس کوفرائض کی زبان میں "مولی الموالات" کہا جاتا ہے؛ پھریہ حکم اس آیت سے منسوخ ہوا جس میں اقرباء کے لیے وصیت کا حکم ہے (النساٍء:۱۱) اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی اور خود اللہ تعالیٰ نے اقرباء کے حصص مقرر فرمادئے (النساء:۱۲)۔ (المستصفیٰ:۱/۷۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۴/۴۶۶۔ کشف الاسرار:۲/۷۔۹۔ مسلم الثبوت:۲/۴۵۔ الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۵۴) حاصل یہ ہے کہ نسخ کی بنیادی تین صورتیں ہوں گی اور ان کا مزید تجزیہ کیا جائے توچھ صورتیں ہوجاتی ہیں، ان تین میں سے صرف ایک میں جیسا کہ ذکر ہوا اختلاف ہے __________ بقیہ صورتیں علماء اہلِ سنت کے یہاں متفق علیہ ہیں۔ ناسخ ومنسوخ کی بحث کسی حکم کی تنسیخ کسی دلیلِ شرعی کے ذریعہ ہوگی؟ اس سلسلہ میں متعدد مصادر کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے بعض متفق علیہ ہیں اور بعض میں اختلاف ہے، مجموعی طور پرپانچ ہیں: عقل، اجماع، قیاس، قرآن، سنت، قرآن کا نسخ خود قراان کے ذریعہ، سنت کا نسخ، قرآن کا نسخ، ان میں سے ہرایک پرااگے روشنی ڈالی جائے گی۔ عقل کے ذریہ نسخ بالاتفاق ناجائز ہے، اس لیے کہ شریعت حاکم ہے اور عقل محکوم اور ظاہر ہے کہ حاکم کا نسخ محکوم کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ (الوجیز فی اصول التشریح الاسلامی:۲۴۹) قیاس کے ذریعہ کتاب اور سنت رسولﷺ کا نسخ جائز نہیں، اس پربھی جمہور کا اتفاق ہے، قیاس جلی ہویاخفی، اس لیے کہ قیاس اصل نہیں بلکہ فرع ہے اور کتاب وسنت اصل ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ جب قیاس اور نص باہم متعارض ہوں تونص پرعمل کیا جائے گا اور قیاس کوترک کردیا جاے گا، اس طرح قیاس کا درجہ کتاب وسنت سے کم تر ہے، یہ بات گذرچکی ہے کہ ناسخ ومنسوخ دونوں کا کم ازکم ہم درجہ ہونا؛ ورنہ ناسخ کا منسوخ سے قوی ہونا ضروری ہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۷۷،۱۷۸۔ ارشادالفحول:۱۹۳) اجماع کے ذریعہ کتاب اللہ سنت رسول اللہ خود اجماع اور قیاس کسی کا نسخ جائز نہیں؛ یہی جمہور اصولین کا مذہب ہے، صاحب الاحکام تحریر فرماتے ہیں "مذھب الجمہور الی ان الاجماع لانسخ بہ" (الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۷۴) البتہ ملاجیونؒ نے اس سلسلہ میں اختلاف نقل فرمایا ہے کہ فخرالاسلام بزدوی کے نزدیک اجماع کے ذریعہ اجماع کا نسخ جائز ہے۔ (نورالانوار:۲۱۴) قرآن کے ذریعہ خود قرآن کا نسخ بالاتفاق جائز ہے، آمدی رقمطراز ہیں: "اتفق القائلون بالنسخ علی جواز نسخ القرآن بالقرآن" (الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۵۹) خود قرآن اس پرناطق ہے کہ "ہم جس آیت کومنسوخ کردیتے ہیں یابھلادیتے ہیں توکوئی اس سے بہتر ہی اس کے مثل لے آتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہرچیزپر قادر ہے" (البقرۃ:۱۰۶) چنانچہ قرآن نے عدتِ وفات اولاً ایک سال مقرر کی (البقرۃ:۲۴۸) پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اور چار ماہ دس دن عدت مقرر پائی . (البقرۃ:۲۳۴)۔ سنت کے ذریعہ سنت کا نسخ جائز ہونے پربھی امت کا اجماع ہے، شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں "لاخلاف فی جواز نسخ السنۃ بالسنۃ" (ارشاد الفحول:۱۹۰) یہی بات ابنِ حزم رحمہ اللہ ہمدانی نے لکھی ہے۔ (کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار:۲/۲۵) قرآن کے ذریعہ سنت کے نسخ کے جائز ہونے پر بھی علماءِ اہلِ سنت متفق ہیں (البرہان فی علوم القرآن:۲/۱۳۲) اس کی متعدد نظیریں شریعت میں موجود ہیں، ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا، جس کا ثبوت سنت سے ہے، بعد کوکتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ ہوگیا "كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ" (البقرۃ:۱۸۳) پہلے نماز میں بیت المقدس کی جانب رُخ کرنے کا حکم تھا اور یہ حدیث سے ثابت ہے؛ لیکن بعد کوقرآن کی آیت (البقرۃ:۱۴۴) نے اس کومنسوخ کرکے خانہ کعبہ کوقبلہ مقرر کیا۔ سنت کے ذریعہ قرآن کے نسخ میں اختلاف ہے، احناف جواز کے قائل ہیں؛ یہی رائے ابوطیب طبری، ابن حاجب کی ہے اور ابن سمعانی کے حسب روایت عام متکلمین؛ نیزمعتزلہ اور اکثراصولیین بھی اس کے قائل ہیں، امام شافعیؒ کے نزدیک یہ صورت جائز نہیں؛ یہی رائے بعض صحابہؓ اور اہلِ ظاہر کی ہے، احناف اور عام فقہاء کی رائے کی تائید آیت وصیت کی حدیث "لَاوَصِیَّۃَ لوَارِث" سے منسوخ کئے جانے سے ہوتی ہے۔ (نورالانوار:۲۱۴) فریقین کے دلائل ملاحظہ ہوں: نورالانوار:۲۱۴ اور الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۶۸۔ قول فعل کے لیے اور فعل قول کے لیے ناسخ ہوسکتا ہے یانہیں؟ اس پربھی علماء اصول نے گفتگو کی ہے؛ چنانچہ آنحضرتﷺ کے فعل کے ذریعہ قول کانسخ جائز ہے اور احادیث میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، جیسے آنحضرتﷺ کا قول حدزنا کے بارے میں ہے کہ شادی شدہ مرد وعورت اگرزنا کریں توسوکوڑے اور رجم دونوں سزائیں دی جائیں؛ لیکن پہلے گذرچکا ہےکہ آپﷺ نے صرف رجم پراکتفاء فرمایا، اس طرح یہ عمل نبویﷺ اس قولِ نبویﷺ کے لیے ناسخ ہوگا۔ (ارشاد الفحول:۱۹۲) فعل کا نسخ قول کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے؛ چنانچہ ابتداء اسلام میں نماز میں گفتگو جائز تھی اور یہ آپﷺ سے فعلاً ثابت تھا، بعد کوآپﷺ نے منع فرمایا اور پہلا عمل منسوخ ہوگیا؛ لیکن امام شافعیؒ اورابن عقیل حنبلی وغیرہ قول کے ذریعہ فعل کے نسخ کے قائل نہیں ہیں (ارشاد الفحول:۱۹۲) بظاہر اس کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی؛ کیونکہ حضورﷺ کے اقوال وافعال دونوں سنت کی تعریف میں داخل ہیں اور دونوں درجہ کے اعتبار سے مساوی ہیں۔ مفہوم بحیثیت ناسخ ومنسوخ مفہوم کی دوقسمیں ہیں، مفہوم موافق، مفہوم مخالف، مفہوم موافق سے مراد کسی کلام کا لازمی معنی، جوفحوائے کلام سے سمجھ می آتا ہے، جیسے "فَلَاتَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ" کا اصل معنی تویہ ہے کہ "أُفٍّ" نہ کہو؛ لیکن لازماً اس سے ماں باپ کومارنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے؛ یہی "فحوائے کلام" ہے؛ اس پرتمام لوگوں کا قریب قریب اتفاق ہے کہ مفہوم موافق ناسخ بن سکتا ہے۔ مفہوم کی دوسری قسم "مفہوم مخالف" ہے، مفہوم مخالف کے ذریعہ کسی نص کے منطوق اور اصل معنی کی تنسیخ نہیں ہوسکتی، ہاں مفہومِ مخالف جس نص سے متلق ہو؛ اگراس کے اصل حکم کومنسوخ کردیا جائے تومفہوم مخالف کے ذریعہ ثابت ہونے والا حکم بھی منسوخ ہوجاے گا، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کلام کا اصل حکم باقی رہے اور صرف مفہومِ مخالف کے ذریعہ ثابت ہونے والا حکم منسوخ کردیا جائے، اس لیے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: "إِنَّمَاالْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ" اس کا اصل معنی تویہ ہے کہ انزالِ منی کی وجہ سے غسل واجب ہو، مفہومِ محالف یہ ہے کہ جماع بلاانزال ہوتوغسل واجب نہ ہو؛ لیکن مفہومِ مخالف سے ثابت ہونے والا حکم "إِذَاجَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ" سے منسوخ ہوگیا۔ نسخ کے جاننے کا طریقہ جب دونصوص باہم متعارض ہوجائیں توظاہر ہے کہ پہلا حکم منسوخ اور بعد والا ناسخ ہوگا، تقدم وتاخر میں تلاوت کا اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ نزول کا اعتبار ہے، اس لیے کہ قرآن مجید میں آیات اور سورتوں کی ترتیب نزولی نہیں ہے، اس تقدم وتاخر کا علم نص قرآنی، حضوراکرمﷺ کی قولی تشریح، فعلِ نبویﷺ ، اجماعِ صحابہؓ، یادوسرے قرائن سے ہوسکتا ہے؛ چنانچہ ان ذرائع کوالگ الگ ذکر کیا جاتا ہے: ابتدائے اسلام میں میدانِ جنگ میں دس کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان کوجمے رہنے کا حکم تھا، بعد میں دوکافروں کے مقابلے ایک مسلمان کواستقامت کا حکم دیا گیا؛ یہاں خود قرآن نے پہلے حکم کامنسوخ ہونا واضح کردیا ہے (الانفال:۶۶) ارشادِ نبویﷺ سے نسخ کے ثابت ہونے کی مثال یہ ہے کہ ابتداً آپؐ نے زیارتِ قبول کی ممانعت فرمادی تھی؛ پھراجازت مرحمت فرمادی، ارشاد ہوا: "كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ ألافَزُورُوهَا"۔ (مشکوٰۃ:۱/۱۵۴) ترجمہ:میں نے تم کوقبروں کی زیارت سے منع کیا تھا؛ پس اب زیارت کرسکتے ہو۔ اجماع سے نسخ کی مثال یہ ہے کہ زکوٰۃ فرض ہونے سے قبل جوحقوق مال سے متعلق تھے، زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد بالاجماع منسوخ ہوگئے، صحابہؓ میں سے کسی نے دوحکم میں سے ایک کے پہلے اور دوسرے کے بعد میں ہونے کی صراحت کردی ہو تویہ بھی نسخ کی دلیل ہے، مثلاً حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی آگ سے پکی ہوئی چیزوں سے وضوء کے بارے میں حدیث ہے کہ: "كَانَ آخِرَ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ"۔ (سنن ابی داؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب فِي تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ ،حدیث نمبر:۱۶۴، شاملہ، موقع الإسلام) خلاصہ یہ ہے کہ نسخ کے جاننے کا مدار دوباتوں میں سے ایک پر ہے، یاتونسخ کی صراحت ہو یاتاریخی اعتبار سے دونصوص میں کون پہلے کی ہے اور کون بعد میں اس کا علم ہو۔ (اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۹۶) منسوخ آیتیں متقدمین اور متاخرین علماء کے نزدیک منسوخ آیات کی تعداد میں اختلاف رہا ہے اور دراصل یہ اختلاف نسخ کے مفہوم کی وسعت اور تنگی پرمبنی ہے، اصل یہ ہے کہ نسخ کے اصطلاحی معنی تبدیل حکم کے ہیں، یہ تبدیلی جس طرح ایک حکم کوبالکلیہ منسوخ کرکے اس کی جگہ دوسرا حکم لانے میں ہے جیسے بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کو قبلہ مقرر کرنا؛ اسی طرح کسی مطلق یاعام حکم میں کسی قید یاشرط کوبڑھادینا بھی ایک قسم کی تبدیلی ہے، متقدمین نے عام طور پر "نسخ" کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے، اس میں کسی حکم کی پوری تبدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی، قید، شرط، یااستثناء وغیرہ کا اضافہ بھی؛ اسی لیے ان حضرات کے نزدیک قرآن میں منسوخ آیات پانچ سوتک شمار کی گئی ہیں، متاخرین نے صرف اس تبدیلی کا نام نسخ رکھا، جس میں حکم بالکل ہی باقی نہ رہے، اس اس اصطلاح کے مطابق آیات منسوخ کی تعداد بہت گھٹ جاتی ہیں؛ چنانچہ علامہ سیوطیؒ نے "الاتقان" میں صرف بیس آیتوں کومنسوخ قرار دیا ہے، ابن عربی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اس کے بعد شاہ ولی اللہؒ نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کی اور صرف پانچ آیتوں کومنسوخ مانا۔ (الفوز الکبیر مقدمہ ارشاد الراغبین:۳۱) جن میں تاویل بعید کے بغیر کوئی تاویل نہیں ہوسکتی، یہ امر اس لحاظ سے مستحسن ہے کہ احکام میں اصل حکم کا باقی رکھنا ہے اور نسخ خلافِ اصل ہے، اس لیے جہاں آیت پرعمل باقی رکھنے کی کوئی توجیہہ ہوسکتی ہے، اس میں بلاضرورت نسخ ماننا مناسب نہیں۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تحقیق میں جوپانچ آیات منسوخ ہیں وہ یہ ہیں: (۱)"كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَاحَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ" (البقرۃ:۱۸۰) ایک قول کے مطابق یہ آیت وراثت سے منسوح ہے، دوسرا قول ہے کہ حدیث "لاوصیۃ لوارث" سے منسوخ ہے، بعضوں نے اجماع سے منسوخ قرار دیا ہے، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ قرآن کی آیت "يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ" (النساء:۱۱) سے منسوخ ہے اور حدیث "لاوصیۃ لوارث" اس نسخ کے لیے بیان ہے۔ (۲)"فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ" (الأنفال:۶۶) اپنے بعد والی آیت سے منسوخ ہے، حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق میری رائے بھی اس آیت کے منسوخ ہونے ہی کی ہے۔ (۳)"لَايَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ" (الأحزاب:۵۲) ارشادِ خداوندی ہے: "إِنَّاأَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي;" (الأحزاب:۵۰) سے منسوخ ہے، حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ ناسخ باعتبارِ تلاوت کے مقدم ہے اور میرے نزدیک یہی امرواضح ہے۔ (۴)" (المجادلۃ:۱۲) اپنی بعد کی آیت سے منسوخ ہے، شاہ صاحبؒ اِس آیت کے سلسلے میں بھی سیوطیؒ سے متفق ہیں۔ (۵)"قُمِ اللَّيْلَ إِلَّاقَلِيلًا" (المزمل:۲) آیت کے آخر حصہ سے منسوخ ہے اور آخری آیت پنج وقتہ نمازوں سے منسوخ سورہ کے اوّل میں تہجد کے استحباب کی تاکید ہے اور سورۃ کے آخر میں محض استحباب کوباقی رکھتے ہوئے تاکید منسوخ کردی گئی ہے۔ (الفوز الکبیر مع ارشاد الراغبین:۳۱)