انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ہندوستان میں لفظ وہابی کا استعمال مجاہد کبیر حضرت سیداحمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے روحانی خلیفہ اور شاگرد تھے، محدثین دہلی کا یہ گھرانہ بقول نواب صدیق حسن خان صاحب "بیت علم الحنفیہ" (حنفیوں کے علم کا گھر) سمجھا جاتا تھا؛ مگرچونکہ انہوں نے سکھوں کے خلاف جہاد کیا اور سکھ ان دنوں انگریزوں کے حلیف تھے توانگریزوں نے انہیں بھی باوجود حنفی ہونے کے وہابی کہا، ہندوستان میں لفظ وہابی کا یہ پہلا استعمال تھا، انگریز مؤرخ ڈاکٹر اسٹارڈ Stuard لکھتا ہے: "شمالی ہند میں ایک وہابی جانباز سیداحمد نے پنجابی مسلمانوں کواُبھار کرحقیقۃً ایک مذہبی سلطنت قائم کرلی؛ مگراُن کی ناگہانی موت سے شمالی ہند میں وہابی فتوحات کا امکان جاتا رہا ،اس سلطنت کوسکھوں نے سنہ۱۸۳۰ھ میں برباد کیا؛ لیکن جب انگریزوں نے اس ملک کوفتح کیا تب وہابی عقائد کی سلگتی ہوئی چنگاریوں نے بہت کچھ پریشان کیا یہ خیالات عرصہ تک باقی رہے اور اسباب غدر میں ممدہوئے اور انہی عقائد نے افغانستان اور شمال مغربی سرحد کے وحشی قبائل کوہمیشہ کے لیئے مذہبی تعصب میں رنگ دیا"۔ یہاں وہابی عقائد سے مراد لڑنا اور حملہ آور ہونا ہے؛ یہاں اس کا معنی مخالفین سے صف بندی کے سوا اور کچھ نہیں؛ ورنہ حضرت سیداحمد شہیدؒ توحنفی تھے آل شیخ کی طرح حنبلی نہ تھےاور مقلدین ہونے کے باوجود دونوں میں بہت سے مسائل میں اختلاف تھا، کوئی رشتہ تلمذوتعلق بھی نہ تھا، حضرت سیداحمد شہید امیرمجاہدین بالاکوٹ اپنے عقائد کے بارے میں لکھتے ہیں: "ایں فقیر وخاندان ایں فقیردربلادِ ہندوستان گمنام نیست الوف الوف انام ازخواص وعوام ایں فقیرواسلاف ایس فقیر را مے دانند کہ مذہب ایس فقیرا باعن جد حنفی است"۔ (مکاتیب سیداحمد شہید:۱۱۶) اس حقیقت کے ہوتے ہوئے مجاہدین بالاکوٹ کووہابی کہنا کسی پہلو سے درست نہ تھا، انگریز چونکہ عربی زبان سے ناواقف تھے، اس لیئے وہ یہ جانے بغیر کہ نام اپنے معنی کے اعتبار سے اپنے مسمی پرکسی نہ کسی طرح منطبق ضرور ہونا چاہیے بے محابا یہ لفظ بولتے تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لفظ آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے والوں کے لیئے زیادہ سے زیادہ استعمال ہو ان لوگوں کووہ وہابی کہتے جوکبھی ان کے سامنے آزادی کا دم مارتے یاکسی تحریک کا نام لیتے اور لفظ وہابی کا یہ تصور ان کے ذہن میں خود نواب صدیق حسن خان صاحب نے ہی ڈالا تھا، موصوف لکھتے ہیں: "اصل وہابی وہی لوگ ہیں جوپیرو محمد بن عبدالوہاب کے ہیں جس نے سنہ۱۲۱۲ھ میں نشان مخالفت کا ملک بخد عرب میں قائم کیا تھا اور خود یہ ایک غریب جنگ جوتھا اس کے جومقلد ہیں وہی وہابی مشہور ہیں"۔ (ترجمانِ وہابیہ:۱۱۱) اس عبارت میں وہابی کا یہی معنی بتلایا گیا ہے کہ وہ جنگ جواور حملہ آور قسم کے لوگوں کا نام ہے اور غیرمقلدین ایسے ہرگز نہیں؛ پھرانگریزوں نے اس لفظ کوجتنا بدنام کرنے کی کوشش کی لوگوں نے ان کی مخالفت میں کچھ اچھے معنی بھی تلاش کرلیئے اور پھریہ لفظ اتنا عام ہوگیا کہ بعض لوگ اس کی تاریخ سے کسی قسم کے تعارف رکھے بغیر اسے اللہ کے نام "الوہاب" سے جوڑنے لگے، اس تاویل سے البتہ اس میں کوئی غلطی نہ تھی؛ لیکن اس کا تاریخی پس منظر اس کے حلاف ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان میں یہ لفظ سب سے پہلے مقلدین پربغیر کسی جوڑ کے آزمایا گیا؛ کیونکہ عرب میں بھی یہ لقب مقلدین کوہی دیا گیا تھا، جب یہ سکہ وہاں نہ چلا توپھراسے ہندوستان کے غیرمقلدین پراستعمال کیا گیا اور اس میں صرف یہ نسبت ملحوظ رکھی گئی کہ تمام فروعی مسائل میں ان غیرمقلدین کا طریقہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے پیروؤں کے طریقہ سے ملتا جلتا تھا؛ گووہ مقلدین ہیں اور یہ غیرمقلدین؛ لیکن چونکہ نماز کی ہیئت ترکیبی دونوں میں ایک سی تھی، اس لیئے ان پر بھی یہ نام چسپاں کردیا گیا، وہابی ہونے کے لیئے گویہاں کوئی نسبت نہ تھی؛ مگرایک مناسبت ضرور تھی؛ سوان پرتاریخی پہلو سے نہ سہی علمی پہلو سے یہ لفظ بولا جانے لگا، موحدین ہند نے اسے بہت برا منایا اور ہرممکن کوشش کی کہ کسی طرح انہیں اس لفظ سے رہائی ملے اور انگریز انہیں اپنا مخالف نہ جانیں۔