انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** علمائے حدیث علماء حدیث سے وہ علماء فن مراد ہیں جوحدیث کے معنی ومضمون منطوق ومفہوم، اس کے عموم وخصوص اور اس کے مناطِ حکم کوپوری طرح سمجھتے ہوں، انہیں فقہاء حدیث بھی کہا جاتا ہے، یہ حضرات فقہ حدیث کے غواص تھے، اس کے سوا جوکچھ ہے وہ صرف متونِ حدیث کی نقل وروایات اور ان کے اسانید ورجال کی معرفت ہے، حافظ ذہبیؒ "تذہیب التہذیب" کے مقدمہ میں امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) سے نقل کرتے ہیں: "الفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم ومعرفۃ الرجال نصف العلم"۔ (مقدمہ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال، للحافظ صفی الدین الخزرجی (المتوفی:۹۲۳ھ) مطبع کبریٰ بولاق، طبع ۱۳۰۱ھ) ترجمہ: حدیث کے معانی میں غور وفکر کرنا اس موضوع کا نصف علم ہے اور نصف ثانی حدیث کے رجال کی معرفت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقہ حدیث کے معانی کوسمجھنے کا ہی نام ہے، یہ حدیث کے متبادل کسی اور ماخذ کا نام نہیں؛ بلکہ حق یہ ہے کہ فقہاء دین ہی علم حدیث کے صحیح وارث ہیں، حضرت امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) جنائز Funerals کی ایک بحث میں لکھتے ہیں: "وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ"۔ (ترمذی، كِتَاب الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِﷺ ،بَاب مَاجَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ،حدیث نمبر:۹۱۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: اور فقہا نے ایسا ہی کہا ہے اور یہی لوگ حدیث کے معانی کو اچھی طرح سمجھنے والے ہیں۔ فقہاء کرام حدیث کوصرف سمجھتے ہی نہیں اس سے احکام غیرمنصوصہ (وہ احکام جن کے بارے میں Injunction موجود نہ ہو) ان کا استنباط بھی کرتے ہیں، اجتہادی امور میں یہی حضرات اولی الامر میں فہم حدیث میں انہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور علم کی دنیا میں انہی کا فیصلہ چلتا ہے، قرآن کریم میں ہے: "وَلَوْرَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ"۔ (النساء:۸۳) ترجمہ:اوراگر وہ پہنچادیتے اُسے رسولﷺ تک او راپنے اولی الامرتک تو اسے وہ لوگ جو ان میں تحقیق واستنباط کرنے والے ہیں معلوم کرلیتے۔ امام ابوبکرجصاص رازی (۳۷۰ھ) لکھتے ہیں، حضرت جابرؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حسن بصریؒ، حضرت عطاؒ اور مجاہدؒ اولی الامر کی تفسیر اولوالفقہ والعلم سے کرتے ہیں۔ (احکام القرآن:۳/۱۷۷، شاملہ، المؤلف: أحمد بن علي الرازي الجصاص أبوبكر) امام تفسیر حضرت قتادہؓ کہتے ہیں "ھم اولوالعلم والفقہ"۔ (احکام القرآن:۳/۱۸۲، شاملہ، المؤلف: أحمد بن علي الرازي الجصاص أبوبكر) حضرت ابوہریرہؓ اس سے حکام مراد لیتے ہیں، الفاظ فقہاء اور امراء دونوں کوشامل ہیں، امراء تدبیر جیوش کرتے ہیں اور علماء حفظ شریعت کرتے ہیں اور جائز وناجائز بتلاتے ہیں؛ سولوگ ان کی اطاعت پر مامور ہوں گے اور انہیں ان کی پیروی کا حکم ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اولی الامر حکام کو کہتے ہیں جس دائرۂ کار میں جس کا حکم چلے وہی اس دائرہ میں اُولی الامر میں سے ہے، حافظ جصاص رازی لکھتے ہیں: "وجائز أن يسمى الفقهاء أولي الأمرلأنهم يعرفون أوامرالله ونواهيه ويلزم غيرهم قبول قولهم فيها، فجائز أن يسموا أولي الأمر من هذا الوجه كماقال في آية أخرى: ﴿ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَارَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ﴾ (التوبہ:۱۲۲) فأوجب الحذر بإنذارهم وألزم المنذرين قبول قولهم"۔ صحیح تفسیر یہی ہے کہ اولی الامر سے مراد فقہاء حدیث ہی ہیں، علماء کے ہی حکم کوواجب الاطاعت سمجھتے ہیں اور ازروئے شرع اُن پر ان کے احکام کی اطاعت واجب ہے؛ لہٰذا اس وجہ سے اُن پر بھی اولی الامر کا اطلاق درست ہے (احکام القرآن:۲/۲۱۰) اولی الامر حکام کو کہتے ہیں جس دائرہ کار میں جن کا حکم چلے وہی اس دائرہ عمل کے اولی الامر ہوں گے، یہ الفاظ اپنے عموم میں ان فقہاء کویقیناً شامل ہیں جن کا فیصلہ مسلمانوں میں عملاً چلتا ہے؛ گووہ اسے اپنے اختیار سے اپنے اوپر نافذ ٹھہراتے ہوں۔ آنحضرتﷺ نے بھی علماء حدیث Scholars اور رواۃ حدیث Transmitters میں فرق کیا ہے، آپ نے راوی حدیث کوفقط حامل فقہ Bearer of knowledge کہا اور علم حدیث کوفقیہ Jurist کے نام سے ذکر فرمایا، تاریخِ حدیث میں راوی حدیث اور عالم حدیث کا یہ فرق ہمیشہ نمایاں رہا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (۳۲ھ) کہتے ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: "نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي، فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَأَفْقَهُ مِنْهُ"۔ (مشکوٰۃ شریف:۳۵، رواہ الشافعی واحمد والدارمی) ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس شخص کوسرسبز کرے جس نے میری بات سنی اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا اور اُسے آگے پہنچایا؛ کیونکہ کئی ایسے بھی حاملین علم Bearer of knowledge ہوتے ہیں جوخودعالم Scholar (فقیہ) نہیں ہوتے اور کئی ایسے بھی حامل علم ہوتے ہیں جواپنے سے زیادہ سمجھنے والے کوبات پہنچادیتے ہیں (یہاں تک کہ وہ بات کی لم اور حقیقت کو پالیں)۔ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضوراکرمﷺ کے ہاں علماء حدیث فقہاء ہی تھے اور محض راوی حدیث ہونا آپ کے نزدیک اس کی ایک ابتدائی منزل تھی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عالم حدیث کا راوی حدیث نہ بننا اس کے علم حدیث میں ہرگز کوئی کمی کی وجہ نہیں، صحابہؓ میں حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کی روایات اگرکم ہیں تواس کا مطلب یہ نہیں کہ ابوہریرہؓ ان سے علم میں آگے تھے۔