انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت معمربن راشدؒ نام ونسب نام معمر،کنیت ابو عروہ اوروالد کا اسم گرامی راشد تھا (شذرات الذہب:۱/۲۳۵) بصرہ کے ایک شخص عبدالسلام بن عبدالقدوس کے غلام تھے،جنہیں خود قبیلہ ازدکی حدان نامی ایک شاخ سے نسبت ولأ حاصل تھی، اسی بالواسطہ نسبت کی وجہ سے ابو عروہ ازدی اورحدانی مشہور ہوئے،بنو حدان میں آکر جس مقام پر آباد ہوئے تھے، وہ بھی محلہ حدان کہا جانے لگا تھا۔ (اللباب فی الانساب :۱) وطن اورولادت ۹۵ھ میں پیدا ہوئے،بصرہ کے رہنے والے تھے،لیکن پھر حالات سے مجبور ہوکر یمن میں مستقل بود وباش اختیار کرلی تھی (الاعلام:۳/۱۰۵۸) اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ یمن کے اکابر شیوخ سے اکتساب فیض کرنے کے لیے وہاں گئے،پھر جب فارغ ہونے کے بعد وطن مالوف واپسی کا عزم کیا تو اہلِ صنعاء جوان کے علم وفضل اورحسن اخلاق سے بے حد متاثر تھے،انہیں چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے اورایک شخص نے انہیں مستقل طور پر یمن میں روکنے کے لیے یہ ترکیب نکالی کہ ان کا عقد وہیں کردیا؛چنانچہ پھر یمن ہی ان کا وطنِ ثانی بن گیا۔ طلبِ علم ابن راشد غلام ہونے کے باوجود تحصیل علم کی فطری استعداد اوربہت ذوق وشوق رکھتے تھے،بقول امام احمدؒ معمر اپنے عہد کے علماء میں سب سے زیادہ علم حاصل کرنے والے اوراس کے جویاں رہتے تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۴۴) چنانچہ اسی لگن اوراخلاص کا ثمرہ تھا کہ یمن کا سفر کرکے اس کے مرکز علم سے مستفید ہونے والوں میں انہیں اولیت کا فخر حاصل ہے، یمن میں اس وقت مشہور صحابی رسولﷺ حضرت ابوہریرہؓ کے آغوشِ تربیت کے پروردہ ہمام بن منبہؒ کا فیض جاری تھا،معمرؒ ان سے پوری طرح مستفید ہوئے (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۲۱،ومرأۃ الجنان:۱/۳۰۳)اس کے علاوہ بصرہ میں قتادہ اور رصافہ میں امام زہری کی خدمت میں حاضر ہوکر خصوصی تلمذ کا شرف حاصل کیاتھا،حضرت قتادہ سے سماعِ حدیث کے وقت معمر کی عمر صرف ۱۴ سال کی تھی، اس کم سنی میں انہو ں نے شیخ مذکور سے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ آخر عمر تک مستحضر رہا جیسا کہ خود ان ہی کا بیان ہے۔ سمعت قتادۃ ولی اربع عشرۃ سنۃ فما سمعتہ اذک کانہ مکتوب فی صدری (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱ ومیزان الاعتدال:۳/۱۸۸) میں نے قتادہ سے چودہ سال کی عمر میں سماع حاصل کیا تھا اوران سے میں نے اس وقت جو کچھ سُنا تھا وہ گویا میرے قلب پر نقش ہوگیا تھا۔ فضل وکمال طلب علم میں اس کا جانکاہ محنت ولگن کے نتیجہ میں وہ فضل وکمال کے آسمان پر خورشید تاباں بن کر چمکے اورزبان خلق نے انہیں عالم الیمن کے لقب سے سرفراز کیا ،ابن جریج جیسے منتخب روزگار امام بھی معمر کی توصیف میں رطب اللسان ہیں؛چنانچہ وہ اپنے تلامذہ سے اکثر فرمایا کرتے تھے۔ علیکم بمعمر فانہ لم یبق فی زمانہ اعلم منہ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۴۵) معمر کے فیضِ صحبت سے مستفید ہو،اس لیے کہ اپنے زمانہ میں ان سے بڑا کوئی عالم نہیں رہا۔ امام احمدؒ کا بیان ہے کہ ہم جب بھی معمرؒ کا دوسرے اہلِ علم سے موازنہ کرتے تو ہمیشہ معمر کو فوقیت حاصل ہوتی (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۲۰)ابن عماد حنبلیؒ ان کو "عالم الیمن ثقہ ورع"اورحافظ ذہبیؒ "احد الاعلام الثقات الامام الحجۃ" لکھتے ہیں۔ (شذرات الذہب:۱/۲۳۵،ومیزان الاعتدال:۳/) حدیث علم حدیث اوراس کے متعلقات میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا،ہزاروں حدیثیں ان کے خزانہ دماغ میں محفوظ تھیں، عبدالرزاق بن ہمام بیان کرتےہیں کہ: کتبت مع معمر عشرۃ الاف حدیث (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱) میں نے معمرؒ سے دس ہزار حدیثیں لکھی ہیں۔ ان کے شیوخ حدیث کی تعداد بہت زیادہ ہے،جن میں اکابر تابعین اورممتاز اتباع تابعین کی کافی تعداد شامل ہے،امام زہری، ہشام بن عروہ، قتادہ،عمرو بن دینار،یحییٰ بن کثیر،ہمام بن منبہ ،ثابت البنانی،عاصم الاحول، ابو اسحاق السبیعی ،ایوب السختیانی ،زید بن اسلم، صالح بن کیسان ،عبداللہ بن طاؤس،سماک بن الفضل، اسماعیل بن علیہ، محمد بن المنکدر،کے نام خصوصیت کےساتھ قابلِ ذکر ہیں اورخود معمر کے فیضان صحبت سے شاد کام ہونے والوں میں سفیان ثوری،عبداللہ بن مبارک، غندر ، عبدالرزاق بن ہمام،سفیان بن عیینہ، ہشام بن یوسف،اسماعیل بن علیہ، یزید بن زریع،سعیدبن ابی عروبہ، ابن جریج،امام شعبہ،عیسیٰ بن یونس، معتمر بن سلیمان، محمد بن ثور اورعبداللہ بن معاذ کے نام نمایاں ہیں،علاوہ ازیں معمر کے شیوخ میں سے یحییٰ بن کثیر ابو اسحاق سبیعی،ایوب سختیانی اورعمروبن دینار نے بھی بایں ہمہ تبحر علم وفن ان سے روایت کی ہے،جو معمر کے علو مرتبت اوربلندی شان کی بین دلیل ہے۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۴۴ ومرأۃ الجنان :۱/۳۲۳) ثقاہت اکثر علمائے جرح وتعدیل نے ان کی توثیق کی ہے،بالخصوص امام زہریؒ سے ان کی مرویات کا پایہ نہایت بلند ہے، ابن معینؒ کا بیان ہے کہ: "معمر اثبت الناس فی الزھری" (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۱،ومیزان الاعتدال:۳/۱۸۸) عجلی کا قول ہے: بصری سکن الیمن ثقۃ رجل صالح (خلاصہ تذہیب وتہذیب الکمال:۳۸۴) وہ بصرہ کے رہنے والے تھے یمن میں سکونت اختیار کرلی تھی،ثقہ اورنیک انسان تھے۔ امام نسائیؒ کہتے ہیں "ھوثقۃ مامون"(ایضاً) علی بن مدینی اورابو حاتم معمر کا شمار ان علمائے کبار میں کرتے تھے،جن پر مشیخت اسناد ختم تھی۔ (تہذیب التہذیب:۱۰۲۴۴) مناقب وفضائل ان گونا گوں علمی کمالات کے علاوہ ابن راشد اوربھی بہت سی انسانی خوبیوں کے حامل تھے،نیک طینتی،تقویٰ،صالحیت اوربلند ظرفی ان کے خاص جوہر تھے،حافظ ذہبی اور علامہ یافعی خامہ ریز ہیں "کان معمر صالحاً خیراً" (العبر فی خبر من غبر:۱/۲۲۱ ومراۃ الجنان:۱/۲۲۳) ابن سعد لکھتے ہیں: کان معمر جلالہ قدر ونبل فی نفسہ (طبقات ابن سعد:۵/۳۹۷) اہلِ یمن ان ہی محاسن و اوصافِ حمیدہ کی بنا پر ان کے والہ وشیفتہ ہوگئے تھے، استغناء اوراخفائے عمل خیر کا یہ عالم تھا کہ ایک بار حاکمِ یمن، معن بن زائدہ نےانہیں کچھ سونا ہدیۃً بھیجا، معمر نے اسے نہ صرف واپس کردیا؛بلکہ اپنی شریک حیات کو سختی سے تنبیہ کردی کہ اگر تم نے کسی کو یہ بات بتائی،تو میں سخت اقدام کروں گا۔ (میزان الاعتدال:۳/۱۸۸) وفات رمضان ۱۵۳ھ میں ان کا آفتاب حیات غروب ہوگیا (العبر:۱/۳۲۰ ومرأۃ الحنان:۱/۳۲۳) وفات کے وقت ۵۸ سال کی عمر تھی۔ (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۴۵)