انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۳۳۔صفوان بن سلیم زہریؒ نام ونسب صفوان نام،ابو عبداللہ کنیت،والد کے نام میں اختلاف ہے،بعض سلیم اوربعض سلام لکھتے ہیں،مدینہ کے ممتاز تابعین میں تھے۔ فضل وکمال اگرچہ صفوان کا اصل طغرائے کمال ان کا زہد وورع تھا،لیکن فضائل علمی سے بھی وہ تہی دامن نہ تھے،حافظ ذہبی ان کو ثقۃ حجۃ اوراعلام میں لکھتے ہیں ۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۲۰) حدیث حدیث میں انہوں نے عبداللہ بن عمرؓ، انس بن مالکؓ، ابو امامہؓ،سعید بن مسیبؓ عبدالرحمن بن اغنم،ابوسلمہ بن عبدالرحمن،سعید بن سلمہ، عبداللہ بن سلیمان الاغر،عبدالرحمن ابن سعد اور عطاء بن یسار وغیرہ سے فیض اٹھایا تھا (تہذیب التہذیب:۴/۴۲۵) اور زید بن اسلم،ابن منکدر،موسیٰ بن عقبہ،ابن جریج ،یزید بن جبیب ،مالک بن انس،اکابر علماء کی بڑی جماعت ان کے تلامذہ میں تھی۔ (ایضاً) فقہ فقہ میں بھی انہیں درک تھا، اور ان کا شمار مدینۃ الرسول کے فقہا میں تھا (ایضاً) ابن عماد حنبلی انہیں فقیہ القدوہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ (شذرات الذہب :۱/۱۸۹) عبادت وریاضت ان کا امتیازی وصف ان کا زہد وورع اورعبادت وریاضت ہے اس کے علاوہ ان کا اورکوئی مشغلہ نہ تھا، احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ وہ خدا کے بہترین بندوں میں تھے، ان کے وسیلہ سے پانی کی دعا کی جاتی تھی۔ (ایضاً) بڑے سخت عبادتیں کرتے تھے، نیند کے غلبہ کے خوف سے جاڑوں کے موسم میں کھلی چھت پر اورگرمیوں میں بندمکان میں عبادت کرتے تھے کہ سردی اور گرمی کے غلبہ سے نیند نہ آنے پائے، نمازیں پڑھتے پڑھتے دونوں پاؤں سوج جاتے تھے اورتھک کر گرپڑتے تھے (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۲۰) سجدوں کی کثرت سے پیشانی زخمی ہوگئی تھی ۔ (ایضاً) اتفاق فی سبیل للہ خدا کی راہ میں انفاق کا یہ حال تھا کہ بدن کے کپڑے تک اتار کر دے دیتے تھے،ایک شب کو مسجد سے نکلے، سردی سخت تھی،مسجد کے باہر ایک آدمی ننگے بدن نظر آیا،صفوان نے اسی وقت اپنے جسم کے کپڑے اتار کر دے دئیے۔ (ایضاً) دولت دنیا سے بے نیازی استغناء اوربے نیازی کے اس درجہ پر تھے کہ سلاطین اورفرماں روا ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے،وہ مگر قبول نہ کرتے تھے،مسجد نبوی میں عبادت کیا کرتے تھے،ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک مدینہ آیا اورعمر بن عبدالعزیزؓ کے ہمراہ مسجد نبوی دیکھنے کے لیے گیا، ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد مقصورہ کا دروازہ کھولا تو اس میں صفوان نظرآئے،سلیمان انہیں پہچانتا نہ تھا، عمر بن عبدالعزیز سے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں،ان کے بشرہ سے بہتر آثار میں نے نہیں دیکھے،عمرؓ بن عبد العزیز نے کہا امیر المومنین یہ صفوان بن سلیم ہیں، ان کا نام سُن کر اس نے غلام کو پانسو دینار کی تھیلی ان کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا،غلام نے لے جاکر پیش کی کہ یہ امیر المومنین کی جانب سے نذر ہے،وہ یہاں موجود ہیں،صفوان نے کہا تم کو دھوکا ہوا ہے کسی اورکے پاس بھیجی ہوگی،غلام نے عرض کیا آپ صفوان نہیں ہیں ؟ فرمایا ہوں تو میں ہی ،غلام نے کہا تو آپ ہی کو دیا ہے،فرمایا جاؤ، دوبارہ پوچھ آؤ، جیسے ہی غلام پوچھنے کے لیے لوٹا، صفوان فوراً جوتا اٹھا کر مسجد سے نکل گئے اورپھر جتنی دیر سلیمان مسجد میں رہا نہ دکھائی دئیے۔ (صفوۃ الصفوۃ :۱۴۸) وفات ۱۳۲ھ میں وفات پائی۔