انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حبشہ کی طرف ہجرت کفار قریش کو جب ان تمام کوششوں میں ناکامی ہوئی اور تبلیغ توحید کا سلسلہ برابر جاری رہا تو ان کو اب فکر ہوئی،انہوں نے دیکھا کہ جس تحریک کو ہم بچوں کا کھیل سمجھ رہے تھے وہ اب نشو ونما پاکر اسقدر طاقتور ہوتی جاتی ہے کہ اس کا انسداد آسان کام نہیں رہا، انہوں نے اب متفقہ طور پر کمر باندھی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے اندر آنے سے روک دیا، شہر کے لڑکوں اوراوباشوں کو متعین کیا کہ جہاں کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا مسلمانوں میں سے کسی کو دیکھیں تالیاں بجائیں، گا لیاں دیں، راستوں اورگلی کوچوں میں چلنے پھرنے سے بازرکھیں،باہر سے آنے والے مسافروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملنے دیں اورجس طرح قابو چلے اورموقعہ ملے ستائیں، ضعیف مسلمانوں کو اب پورے جوش بڑے عزم وہمت کے ساتھ تنگ کرنا اورستانا شروع کردیا، یہاں تک کہ شہر مکہ کی سرزمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہوئی اور مسلمانوں کی زندگی وبال بن گئی، یہ حالت دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ ملکِ حبش میں (جہاں عیسائی حکومت تھی) چلے جاؤ؛چنانچہ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں گیارہ مرد اورچار عورتوں نے حبش کے ارادہ سے مکہ چھوڑا،یہ پندرہ آدمیوں کا مختصر قافلہ رات کے وقت چھپ کر مکہ سے نکلا، جدہ کی بندرگاہ پر اتفاقاً جہاز تیار مل گیا اوریہ لوگ جہاز میں سوار ہوکر ملکِ حبش میں پہنچ گئے، ان اولون المہاجرین میں قابلِ تذکرہ حضرات یہ تھے: حضرت عثمان بن عفانؓ،ان کی بیوی رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت حذیفہ بن عتبہؓ، حضرت عثمان بن مظعونؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت زبیر بن العوامؓ،حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت عامر بن ربیعہؓ، حضرت سہیل بن بیضاؓ۔ یہ لوگ عموماً قریش کے مشہور اورطاقتور قبائل سے تعلق رکھنے والے تھے جو دلیل اس امر کی ہے کہ اب قریش کے مظالم صرف غلاموں اورضعیفوں تک ہی محدود نہ تھے؛بلکہ وہ ہر ایک مسلمان کو خواہ وہ کیسے ہی طاقتور قبیلہ کا آدمی کیوں نہ ہو نشانہ مظالم بنانے میں متامل نہ تھے، نیز یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کمزور اوربے کس لوگوں میں اتنی بھی استطاعت نہ تھی کہ سامانِ سفر ہی حاصل کرسکیں،کفار کو جب ان مسلمانوں کے ہجرت کرنے اورحبش کی طرف روانہ ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ تعاقب میں روانہ ہوئے،لیکن کفار کے پہنچنے سے پیشتر جہاز بندرگاہِ جدّہ سے حبش کی طرف روانہ ہوچکا تھا،حبش میں پہنچ کر مسلمان اطمینان اورفراغت کے ساتھ رہنے لگے،ان کے بعد مسلمانوں نے یکے بعد دیگرے حبش کی طرف ہجرت کا سلسلہ جاری رکھا، حضرت جعفر بن ابو طالبؓ بھی حبش میں اپنے مسلمان بھائیوں سے جاملے، اب مسلمانوں کی تعداد ملکِ حبش میں تراسی تک پہنچ گئی تھی۔ مسلمانوں کو ملکِ حبش میں گئے ہوئے ابھی چند مہینے ہی گذرے تھے کہ وہاں انہوں نے یہ افواہ سنی کہ قریش مکہ تمام مسلمان ہوگئے یا اُن سے مصالحت ہوگئی اور اب مسلمانوں کو مکہ میں کوئی خطرہ نہیں رہا ہے،اس خبر کو سن کر بعض مسلمان حبش سے مکہ کو واپس ہوئے اوربعض نے اس افواہ کی تصدیق اورقابلِ قبول ذریعہ سے خبر کے پہنچنے کا انتظار ضروری سمجھا،جو لوگ مکہ کو واپس آگئے تھے انہوں نے مکہ کے قریب پہنچ کر سُنا کہ وہ افواہ غلط تھی،لہذا اُن میں سے بعض تو راستے ہی سے واپس حبش کی جانب چلے گئے اوربعض کسی بااثر اورطاقتور قریشی کی ضمانت حاصل کرکے مکہ میں واپس آگئے،یہ لوگ مکہ میں آکر اور مسلمانوں کو بھی اپنے ہمراہ لے کر پھر حبش کی طرف روانہ ہوگئے،یہ حبش کی دوسری ہجرت کہلاتی ہے،اب ملکِ حبش میں مسلمانوں کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گئی۔