انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہؓ کے اعمال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمان آپ کی تعلیمات قدسیہ قولی ہوں یا فعلی یا تقریری(جن کی آپ نے اپنے سکوت سے منظوری دی ہو)صحابہ کرام کی زبان سے آگے بیان ہوں یا ان کے عمل سے یہ دونوں طریقے نعمت حدیث کو آگے پہنچانے میں برابر کے کار فرما رہے ہیں وہ کبھی نام لے کر کہتے تھے کہ ہم حضورﷺ کا سا علم تمہیں کرکے دکھائیں؟اور پھر صحابہ کا عمل سامنے آتا..کبھی وہ یوں کہتے کہ ہم حضور اکرمﷺ کے عہد میں ایسا کیا کرتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ صحابہ کے اپنے دینی اعمال ہی حضورﷺ کی تعلیمات کا نشان سمجھے جاتے تھے اور یہ وہ کام تھے جن میں کسی اجتہاد کی گنجائش نہ ہوتی تھی اور یہ سمجھا جاتا کہ یہ حضورﷺ کی ہی تعلیم ہے جوصحابہؓ کے اعمال میں جلوہ گر ہے، پہلی صورت کی مثال: جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود(۳۲ھ) کا وہ ارشاد ہے جوانہوں نے اپنے اصحاب سے فرمایا: "أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى"۔ (ترمذی،بَاب مَاجَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّافِي أَوَّلِ مَرَّةٍ،حدیث نمبر:۲۳۸،شاملہ،موقع الاسلام) یاد رہے کہ یہ نماز کی شکل وصورت میں مشابہت بتلانی مقصود تھی، مقام نماز اور اس کی روحانی کیفیت میں غیر نبی کی نماز، نبی کی نماز کو نہیں پہنچ سکتی،مخالفین صحابہ اگر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر الزام لگادیں کہ دیکھو وہ اپنی نماز کو حضورﷺ کی نماز کے برابر کہہ رہے ہیں اور یہ بے ادبی اور گستاخی ہے تو ان کی خدمت میں عرض کیا جائے گا کہ قائل کی مراد سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، قائل کی مراد سمجھے بغیر اس پر بے ادبی کا فتوی لگادینا علماء سوء کا طریق ہے، اہل حق اس سے احتراز کرتے رہے ہیں ؛یونہی کسی کو بے ادب اور گستاخ کہہ دینا شرارت کے سوا کچھ نہیں، حضرت ابو ہریرہؓ نے بھی اسی طرح ایک دفعہ اپنی نماز کو حضورﷺ کی نماز کا نمونہ بتلایا،حضرت امام شافعیؒ روایت کرتے ہیں: "أن أبا هريرة رضي الله عنه كان يصلي بهم فيكبر كلما خفض ورفع، فإذا انصرف قال : والله إني لأشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم "۔ (مسندالشافعی،حدیث نمبر:۱۴۴،جز۱/۱۴۷،شاملہ،موقع جامع الحدیث) ترجمہ:حضرت ابو ھریرہؓ انہیں نمازیں پڑھارہے تھے،جب بھی آپ جھکتے اور اٹھتے "اللہُ أَکْبَرْ" کہتے جب نماز پوری کرچکے تو فرمایا میں تمھیں حضورﷺ کی سی نماز بتلارہا ہوں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابو ھریرہؓ کی نمازاپنے مقام اور کیفیت میں حضورﷺ کی سی نماز تھی اور کیا کسی نے اس روایت کی بنا پر حضرت ابو ھریرہؓ پر کوئی حضورﷺ کی بے ادبی کا فتوی لگایا؟۔ میمون المکی ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس گئے اور آپؓ سے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی نماز کا ذکر کیا، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: "إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِﷺ فَاقْتَدِ بِصَلَاةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْر"۔ (ابوداؤد،بَاب افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۶۳۰،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:اگر تم چاہتے ہو کہ حضورﷺ کی نماز کو عملاً دیکھوتو عبداللہ بن زبیر کی نماز کی اقتداء کرو۔ یہاں یہ نقطہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حضورﷺ کی اتباع صحابہ کی اقتداء سے ہی امت میں جاری ہوئی ہے،صحابی آنحضرتﷺ سے جتنے قدیم الصحبت ہواور جتنا کثیر الصحبت ہو اتنا ہی وہ حضورﷺ کے عمل کا زیادہ نمونہ سمجھا جائےگا،اس کے علاوہ کوئی حضورﷺ کے بارے میں کسی علم کا دعوی کرے تو وہ آنحضرتﷺ سے روایت لائے گا، حضرت ابو حمید الساعدیؓ(۶۲ھ)ایک دفعہ دس صحابہ میں بیٹھے تھے،ان میں ابو قتادہ ربعی بھی تھے؛ انہوں نے کہا : "أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" (میں حضورﷺ کی نمازکو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں)آپ نے جو کہا اسے امام ترمذی کی روایت سے سنیے: "قَالُوا مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً وَلَا أَكْثَرَنَا لَهُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَى قَالُوا فَاعْرِضْ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا"۔ (ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ الصَّلَاةِ،حدیث نمبر:۲۸۰،شاملہ،موقع الاسلام) ترجمہ:صحابہ نے کہا آپ حضورﷺ کی صحبت میں ہم سے پہلے کے تو نہیں،نہ آپ کا حضورﷺ کے پاس حاضر ہونا ہم سے زیادہ تھا،انہوں نے کہا کیوں نہیں،اس پر دوسرے صحابہ نے فرمایا اچھا بیان کیجیے،پھر آپ نے کہا کہ حضورﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے تھے..الخ۔