انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مفتی محمد حسن صاحبؒ (م :۱۹۶۱ ء) ۱۔اطاعت کا معنی یہ ہے کہ عمل کرنے سے جی خوش ہوتا ہو اوریہ خوشی اس وقت حاصل ہوگی جب اللہ تعالیٰ سے سچی محبت ہوگی۔ ۲۔شکر کا مطلب یہ نہیں کہ تسبیح لے کر شکر شکر کا وظیفہ پڑھتا رہے؛بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن کاموں سے شریعت نے منع کیا ہے ان سے رکے اورجن کا حکم دیا ہے ان کے کرنے میں لگا رہے۔ ۳۔حقیقی نقصان یہ ہے کہ موت کفر پر اورحقیقی کامیابی یہ ہے کہ خاتمہ ایمان پر نصیب ہوجائے۔ ۴۔وساوس کا علاج حکمائے امت نے یہ تجویز فرمایا ہے کہ ان کی طرف توجہ ہی نہ کرے نہ دفع کرنے کے لئے نہ لانے کے لئے۔ ۵۔دنیا کا مال اگر اتباع شریعت کے ساتھ حاصل ہوتو بہت بڑا انعام ہے اور اگر شریعت کی مخالفت کا سبب بنے تو وبال ہے۔ ۶۔ہرحال میں اللہ کی تجویز پر راضی رہے،راضی ہونے سے اللہ تعالی اس پر راضی ہوتا ہے۔ ۷۔وقت کی قدر کرو، مرتے وقت آدمی زمین وآسمان کے خزانے بھی پیش کرے تو ایک منٹ بھی زندگی کا نہیں مل سکے گا۔ ۸۔دین کی ایک صورت ہے اورایک حقیقت ،اگر کسی کو دین کی حقیقت کا پتہ لگ جائے اوردین کی حقیقت حاصل ہوجائے تو سمجھو کہ بڑی عظیم دولت مل گئی ۔ ۹۔یہ جان لینا چاہئے کہ خواہشات نفس تو انسان کے نفع کے لئےپیدا کی گئی ہیں؛ کیونکہ خواہشات کے مقابلہ سے مشقت اور مشقت سے درجات بڑھتے ہیں۔ ۱۰۔عبد اس کو کہتے ہیں جو مالک کے حکموں کے سامنے اپنی رائے اوراپنے اختیار کو بالکل فنا کردے۔ ۱۱۔فلاسفہ کے نزدیک علم کی تعریف ہے کسی شے کی صورت ذہن میں آجائے اور شریعت نے علم کا ترجمہ کیا ہے کہ جس کی پہچان سے عمل کا تقاضااور شوق پیدا ہو۔ ۱۲۔ہر نیک کام کرنے والا اللہ تعالی کی نعمت سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیک کام کی توفیق دی۔ ۱۳۔اللہ تعالی کے احسانات کو یاد کرنے سے محبت الہی پیدا ہوتی ہے اورمحبت کا خاصہ یہ ہے کہ محبوب کی مرضیات میں لگارہے اورناراضگی سے بچتا رہے۔ ۱۴۔مسجد میں بیٹھ کر چار گھنٹے وظیفہ کرلینا آسان ہے،نفس کو گناہوں سے روکنا بہت مشکل ہے۔ ۱۵۔حق بیان کردینا چاہئے،کسی کا نام لے کر بطلان نہ کرنا چاہئے،نام لئے بغیر حق ظاہر کیا جائے حق خود ہی باطل کو جلادیتا ہے۔ ۱۶۔ہم عصر ہونا نفرت کی بنیاد اورسبب ہوتا ہے،دنیا سے جانے کے بعد آدمی کی قدر ہوتی ہے۔ ۱۷۔ہر معاملہ کو شریعت کے موافق کرنا ذکر حقیقی ہے،باقی یہ مروجہ ذکر، ذکر صوری ہے۔ ۱۸۔رخصت میں عبدیت عزیمت سے زیادہ ہے۔ ۱۹۔نرا علم کافی نہیں ہوسکتا اور نری صحبت اہل اللہ کافی ہوسکتی ہے،صحابہ کرامؓ کو نری صحبت حاصل ہوئی وہ ان کو کامل مکمل بنا گئی،اگرچہ مدرسہ کی تعلیم حاصل نہ ہوئی۔ ۲۰۔تقدیر علم الہیٰ کو کہتے ہیں حکم الٰہی کو نہیں کہتے،علم الٰہی اور ہے حکم الٰہی اورہے۔ ۲۱۔بعض لوگ اس طرح ذکر کرتے ہیں جیسے باجا بج رہا ہو، نہ خیال ہے نہ توجہ اوردھیان ہے،ذکر خوب دل لگا کر توجہ اوریکسوئی کے ساتھ کرناچاہئے ورنہ اس سےاصلاح نہیں ہوتی۔ ۲۲۔اس زمانے میں کثرت طاعت سے زیادہ گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماحول کی گندگی کی وجہ سے قدم قدم پر ارتکاب معصیت کا خدشہ ہے۔ ۲۳۔شکر اتنا اداکرنا چاہئے کہ دینے والا یہ سمجھ جائے کہ میری چیز ان کو بہت پسند آئی مگر اتنی تعریف نہ کرے کہ دینے والے کو شبہ ہونے لگے کہ کچھ اورمانگ رہا ہے۔ ۲۴۔تمام امت کا اتفاق ہے کہ ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے،یعنی درود شریف،اس واسطے بزرگوں کا ارشاد ہے کہ اپنے مقصود کو درود شریف میں لپیٹ دو یعنی دعا کے اول وآخر درود شریف پڑھو، سخی اور کریم داتا سے یہ بعید ہے کہ اول اورآخر تو قبول کرلے اوربیچ والی دعا کو رد فرمادے۔ ۲۵۔ایمان بڑی دولت ہے،بڑی چیز ہے،اب تو بوڑھا ہوگیا ہوں،کمزور ہوں ،ہمت پست ہوگئی ہے،سوچتا ہوں،جائزہ لیتا ہوں کہ اگر جوان ہوتا،طاقت ہوتی اور ایمان کے لئے جسم کا تکہ تکہ بوٹی بوٹی ہوجاتا تو کیا ہوتا؟تو بحمد اللہ اپنے آپ کو متفق اور تیار پاتا ہوں،ایمان کی حفاظت بڑی چیز ہے۔ ۲۶۔اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندے کے لئے زمین میں مقبولیت رکھ دیتے ہیں یہاں تک کہ پرندے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ ۲۷۔روح المعانی میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرجائے کہ میرا مال سب سے زیادہ سمجھ دار شخص کو دیا جائے تو(سب ائمہ کا اس پر اتفاق ہے اور درمحتار میں بھی لکھا ہے کہ)سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو سب سے زیادہ دین دار ہے اورجو آخرت کی فکر اورسمجھ رکھتا ہے۔ ۲۸۔مال کو فضول خرچ نہ کرو یہ قیمتی چیز ہے، مسرف مرتد ہوجاتا ہے بخیل مرتد نہیں ہوتا۔بخل اگرچہ بری چیز ہے مگر اسراف اس سے بھی برا ہے۔ ۲۹۔فلسفی پردین کے اسرار منکشف نہیں ہوتے دین کے اسرار توتقوی سے منکشف ہوتے ہیں۔ ۳۰۔جس کو دیکھا جائے بشرطیکہ اس کا دیکھنا جائز بھی ہو اسی کو خدا بینی کا شیشہ بنالیا جائے۔ ۳۱۔اصلی مزہ تو دین میں ہے اور پھر لذت عمل میں ہے،سارنگی اورستارہ میں وہ مزہ نہیں جو علم دین میں ہے، جو علماء علم سے مزہ اورلطف حاصل نہیں کرتے یا تو ان میں علمی لیاقت نہیں ہوتی یا حرص و طمع اس لطف کو ضائع کردیتی ہے۔ ۳۲۔ہرنیکی کا دھیان اول اللہ تعالیٰ ہی دل میں پیدا کرتے ہیں،پھر بندہ اس نیکی پر عمل کرتا ہے اس لئے اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے،شکر کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی۔ ۳۳۔تمام احکام کے لئے قیود وشرائط ہیں ذکر کے لئے کوئی قید و شرط نہیں جو چیز ضروری ہوتی ہے وہ بغیر قید اور قیمت کے ہوتی ہے جیسے ہوا ضروری ہے لیکن مفت ہے اس لئے ذکر ہر حال میں کرنا چاہئے اس کے لئے وضو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ۳۴۔جو نعمت کفر وعناد یا نافرمانی کا ذریعہ بنے وہ نعمت ہی عذاب ہے،تمام دنیا کی بھی اگر سلطنت حاصل ہو تو وہ بھی عذاب ہے،اس طرح جو تکلیف توجہ الی اللہ کا ذریعہ بنے وہ نعمت ہے،غرض اصل چیز اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری ہے۔ ۳۵۔معاصی سے نفرت ہو عاصی سے نفرت نہ ہو، یعنی گناہوں سے نفرت ہو گناہ گار سے نفرت نہ ہو۔ ۳۶۔نیکی بڑی نعمت ہے اورسب سے بڑی نیکی گناہوں سے بچنا ہے،اس لحاظ سے نیند بھی بڑی نعمت ہے،آدمی جب سوتا ہے تو گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ ۳۷۔اس زندگی میں ایک مرتبہ اللہ کہنے سے جو کچھ انسان کو اجر وثواب اورقرب الہی نصیب ہوتا ہے ا س زندگی کے بعد اگر کروڑ مرتبہ بھی اللہ تعالیٰ کا نام مبارک لے گا تو رائی کے برابر بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ۳۸۔تشویش کا علاج فکر آخرت ہے، یہ وہ اژدھا ہے کہ کل پریشانیوں کو نگل جاتا ہے اس دولت سے کام لیں۔ ۳۹۔یہ تمنا کہ پریشانی نہ ہو، مستقل پریشانی ہے،اس کی تمنا ترک کرے کہ پریشانی نہ ہو،رفع پریشانی کی جگہ تو جنت ہے۔ ۴۰۔عاجزی وانکساری کی عینک ہی سے بندہ اللہ تعالی کا دیدار حاصل کرسکے گا۔ ۴۱۔اعمال کے ثمرہ کا نام رحمت رکھا ہےیعنی جو ملے گا وہ اعمال کا بدلہ نہیں ہوگا اس لئے کہ اعمال محدود ہیں اور ثمرہ غیر محدود ہوگا اور رحمت بھی غیر محدود ہے۔ (ماخوذ از ‘‘احسن السوانح’’ حکیم محمود احمد ظفر،ص:۴۸۶ سے ۵۳۲،اختصار وترمیم کے ساتھ)