انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسمائے عشرہ مبشرہ حضور اکرم ﷺ نے ایک مجلس میں حسب ذیل دس صحابہؓ کو جنت کی بشارت دی تھی،یہ صحابہؓ عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں، ان کے مختصر حالات درج ذیل ہیں: ۱- حضرت ابو بکرؓ صدیق : آزاد مردوں میں اسلام قبول کرنے کا اعزاز حضرت ابو بکرؓ کو حاصل ہے جو بنی تیم کے سردار تھے، ذی اثر ، ذی حشم اور ذی ثروت تھے، قریش کے خوں بہا ‘ ضمانت اور تاوان کے مقدمے فیصل کرتے تھے، سلیم الطبع ، صائب الرائے، حلیم و بردبار تھے، ان کا بلا کسی تردد اور دباؤ کے اسلام قبول کرنا باعث فضیلت تھا ، اپنے تمام قبائلی امتیازات کو داؤ پر لگاکر معاصر رفیق کا امتی بن کر غیر معمولی طور پر اسلام قبول کرلیاجو حضورﷺ کی بلند کرداری اور صداقت کی پختہ دلیل ہے، اسی لئے ارشاد نبوی ہے کہ: میں نے جس کسی پر اسلام پیش کیا وہ اس سے کچھ نہ کچھ ضرور جھجکا بجز ابوبکرؓ کے کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں ذرہ برابر بھی توقف نہیں کیا، تصدیق نبوت کے ساتھ تبلیغ میں لگ گئے ، اپنے ایمان کو کسی سے مخفی نہیں رکھا ، آپ کی کوششوں سے عشرہ مبشرہ کی دس میں سے پانچ ذی مرتبت ہستیوں نے اسلام قبول کیا ، جن میں حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت زبیرؓ بن عوام ، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور حضرت طلحہٰؓ بن عبید اللہ شامل ہیں،یہ سب کی سب قریش کی معزز شخصیتیں تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ مکہ کے مالدار تاجر تھے، جہاں دیدہ اور تجربہ کار ، ایمان لائے تو اپنا سارا سرمایہ نشر و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردیا ، ہر نازک لمحہ اور سخت مقام پر رفاقت کا حق ادا کیا ، معراج کی صبح کفار کے پوچھنے پر بلا پس و پیش اس محیر القول واقعہ کی تصدیق کی اور حضور ﷺ سے، صدیق، کا لقب پایا، ہجرت مدینہ کے خطرناک سفر میں ہم رکابی ‘ غارِ ثور میں’ ثانی اثنین ‘‘گوشۂ گور میں رفیق قبر بننے کی سعادتوں سے ہم کنارہوئے ۔ آپ کا نام عبداللہ ہے ، ابوبکر کنیت ہے، صدیق اور عتیق لقب، باپ کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے، ماں کا نام سلمیٰ اور اُم الخیر کنیت ہے، حج فرض ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنا قائم مقام اور امیر الحج بنا کر روانہ فرمایا، آپ کا تعلق قریش کے معزز قبیلہ بنو تیم سے تھا۔ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے، آپ کے دورِ خلافت میں دو اہم فتنے اُٹھے جن میں سے ایک فتنۂ ارتد اور دوسرا مانعین زکوٰۃ کا تھا ، آپ نے دونوں فتنوں کو عزم و حوصلہ سے مقابلہ کر کے رفع کیا، آپ کا عہد خلافت ۲ سال ۲ ماہ رہا ، جمادی الآخر ۱۳ ہجری میں بہ عمر ۶۳ سال وفات پائی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ۲- حضرت عمرؓ فاروق : آپ کا نام عمر ہے ، ابو حفص کنیت اور فاروق لقب ہے، والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام ختمہ ، آپ بنی عدی سے ہیں ، آپ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں حضور ِ اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے ، آپ کا خاندان عرب میں بہت معزز سمجھا جاتا تھا، قریش کی سفارت اور ان کے باہمی جھگڑوں میں ثالثی کی خدمات اسی خاندان سے متعلق تھی، آپ کی ولادت حضورِ اکرم ﷺ کی ولادت کے بارہ سال بعد ہوئی،آپ نے سپہ گری اور فن تقریر میں مہارت حاصل کی ، ابھی جوانی کا آغاز تھا کہ آپ کی جرأت وشجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھ گئی؛ پھر آپ نے تجارت کے سلسلہ میں دور دور کے ملکوں کاسفر کیا ، دوربینی ، وسیع النظری اور تجربہ کاری کے اوصاف بھی پیدا ہوگئے ، آپ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ مشہور ہے ، وہ یہ ہے کہ آپ حضور ﷺ کے قتل کے ارادہ سے تلوارلےکر گھر سے نکلے راستہ میں معلوم ہوا کہ خود آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں، تو سیدھے ان کے پاس گئے جو تلاوت قرآن میں مصروف تھے، ان کو زد و کوب کیا ، پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو قرآن پڑھواکر سنا اور فوری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلئے ، نبوت کے چھٹے سال آپ مسلمان ہوئے ۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ صدیق کے مرض میں جب زیادتی ہوئی تو آپ نے محسوس کیا کہ دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے، آپ کو خلافت کی فکر ہوئی اور آپ نے سوچا کہ اگر خلافت کے مسئلہ کو طئے نہ کردیاگیا تو پھر مسلمانوں میں نزاع ہوگی، آپ نے کافی غور و خوص کے بعد حضرت عمرؓ کا نام تجویز کیا اور اپنی تجویز کو اکابر صحابہؓ کے سامنے پیش کیا ، ان میں سے اکثر نے اس تجویز کو پسند کیا لیکن بعض نے کہا کہ حضرت عمرؓ بہترین شخص ہیں؛ لیکن ان کے مزاج میں ذرا سختی ہے، حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا کہ جب ان پر خلافت کا بوجھ پڑے گا تو یہ سختی خود بخود جاتی رہے گی، آخر میں سب نے حضرت ابو بکرؓ کی رائے سے اتفاق کیا اور حضرت عمرؓ کی خلافت پر راضی ہوگئے ، پھر آپ نے حضرت عثمانؓ کو بلا کر عہد نامہ خلافت لکھوایا اور حضرت عمرؓ کی بیعت خلافت ہوئی ، آپ کے عہد خلافت میں بہت سی فتوحات ہوئیں اور مملکت اسلامیہ کی توسیع ہوئی۔ حضرت عمرؓ کو مغیرہ ؓ بن شعبہ کے غلام ابو لؤ لؤ نے ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ہجری بدھ کے دن فجر میں زخمی کیا اور تین دن بعد آپ نے یکم محرم الحرام اتوار ۲۴ ہجری ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی، نماز جنازہ حضرت صہیبؓ بن سنان روحی نے پڑھی اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کے پہلو میں دفن ہوئے، آپ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ ۳- حضرت عثمانؓ غنی : آپ کا نام عثمان ہے ، ابو عمر کنیت ہے ، ذو النورین لقب ہے ، والد کا نام عفّان ہے اور والدہ کا ارویٰ ، آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی اُمیہ سے تھا، آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے، آپ کی نانی بیضاء اُم حکیم بنت عبدالمطلب حضور ﷺ کی پھوپھی تھیں ، حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے آپ نے اسلام قبول کیا، حضرت عثمانؓ دونوں ہجرت حبشہ میں شریک رہے، غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے ؛کیونکہ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ ان دنوں بیمار تھیں ، مقام حدیبیہ میں جو بیعت رضوان ہوئی اس میں حضرت عثمانؓ شرکت نہ کر سکے اس لئے کہ حضور اکرمﷺ نے آپ کو صلح کے معاملات طئے کرنے کے لئے مکہ بھیج دیا تھا، جب بیعت رضوان ہوئی تو حضورﷺ نے اپنے ایک دست مبارک کو دوسرے دست مبارک پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمانؓ کے لئے ہے، ان کو ذو النورین کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کے نکاح میں حضور ﷺ کی دو صاحبزادیاں یعنی حضرت رقیہؓ اور حضرت اُم کلثومؓ یکے بعد دیگرے آئیں ۔ حضرت عمرؓ کی وفات سے قبل بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ آپ اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد فرمائیں تو اچھا ہے، حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اگر میں کسی کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کروں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ، کیونکہ حضرت ابو بکرؓ نے ایسا کیا اور اگر کسی کو نامزد نہ کروں تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ، کیونکہ حضور اکرم ﷺ نے ایسا کیا، پھر فرمایا: اگر آج ابو عبیدہؓ بن الجراح زندہ ہوتے تو میں انہیں اپنا قائم مقام تجویز کرتا ؛کیونکہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ ابو عبیدہؓ اس اُمت کے امین ہیں، کسی نے کہا : اپنے صاحبزادہ عبداللہ بن عمر کو خلیفہ بنا دیجئے؛ کیونکہ وہ اپنے علم و فضل اور قدامت اسلام کے لحاظ سے ہر طرح موزوں ہیں، حضرت عمرؓ نے جواب دیا : خاندان خطاب میں سے ایک ہی شخص امت مسلمہ کی ذمہ داری کا حساب دینے کے لئے کافی ہے، اگرعمر اس محاسبہ سے ذرہ برابر بھی چھوٹ جائے تو وہ اسی کو غنیمت سمجھے۔ صحابہؓ اس وقت خاموش ہوگئے ؛لیکن بعد میں اس مسئلہ کو چھیڑا تو فرمایا ! زندگی بھر جو بار مجھ پر رہا وہ مرنے کے بعد بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنا نہیں چاہتا،یہ چھ شخص ہیں جن کے جنتی ہونے کی رسول اکرمﷺ نے خبر دی ہے ، علیؓ، عثمان ؓ ، عبدالرحمن ؓ بن عوف ، سعد ؓبن ابی وقاص ، زبیر ؓ بن عوام اور طلحہؓ بن عبیداللہ، ان کو اختیار دیتا ہوں کہ جمع ہو کر اپنی جماعت میں سے کسی کو ایک امیر چن لیں، پھر فرمایا! جب میری تدفین سے فراغت ہو تو ان چھ آدمیوں کو ایک مکان میں جمع کرنا اور ان سے کہنا کہ اپنی جماعت میں سے تین دن کے اندر اندر کسی کو امیر مقرر کر لیں، اگر متفقہ طور پر فیصلہ نہ ہو سکے تو جس کی طرف اکثریت رائے ہو وہ امیر منتخب ہو گا، اگر دونوں طرف رائیں برابر ہوں تو عبداللہ بن عمر کو حکم بنایا جائے؛ لیکن انھیں خود خلیفہ بننے کا حق نہ ہوگا، اگر عبداللہ کا حکم بنانا پسند نہ کریں تو جس طرف عبدالرحمنؓ بن عوف ہوں گے وہ رائے قابل قبول ہو گی، جو شخص اس جماعت کے فیصلہ سے اختلاف کرے اور امت میں نزاع پیدا کرنا چاہے تو اس کی گردن اڑا دینا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ان چھ حضرات نے متفقہ طور پر حضرت عثمانؓ کو خلیفہ منتخب کیا،۲۹ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو آپ کی بیعت ہوئی، آپ کے دور ِ خلافت میں بھی کافی فتوحات ہوئیں۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں یمن کا رہنے والا ایک چالاک اور عیار یہودی عبداللہ بن سبا مدینہ آیا اور مسلمانوں کی جماعت میں داخل ہو گیا،یہاں کچھ عرصہ رہ کر اس نے مسلمانوں کی داخلی کمزوریوں سے واقفیت حاصل کر لی، پھر مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی تفریق پیدا کر نے کے لئے ایک ’’خفیہ پارٹی ‘‘قائم کرنے کی اسکیم مرتب کی اور بعد ترتیب تمام صوبوں میں اس کی شاخیں قائم کی گئیں ، اس پارٹی کی فتنہ پردازیوں کی بدولت مفسدین نے حضرت ثمانؓ کے قتل کا منصوبہ بنایا ، چنانچہ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ہجری کو جمعہ کے دن بوقت عصر حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوئی، تین روز تک نعش بے گور و کفن پڑی رہی، چند لوگ حضرت علیؓ کے پاس گئے، ان کی سفارش سے دفن کی اجازت ملی، مغرب اور عشاء کے درمیان جنازہ اٹھایا گیا، سترہ آدمیوں نے مل کر نماز جنازہ پڑھی اور جنت البقیع کے قریب حش کوکب میں آپ کودفن کیا گیا، اس وقت آپ کی عمر ۸۲ سال یا ۸۸ سال تھی، دورِ خلافت بارہ سال سے کچھ دن کم تک رہا۔ ۴- حضرت علی ؓ : حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی، غافقی(امیرمفسدین مصر) مسجد نبوی میں امامت کے فرائض انجام دیتا رہا، اس دوران حضرت علیؓ کا نام خلافت کے لئے تجویز کیاگیا اور ان سے اس منصب کو قبول کرنے کی درخواست کی، حضرت علیؓ نے پہلے تو انکار کیا؛ لیکن جب دیکھا کہ اکابر صحابہ کی بھی یہی رائے ہے تو آپ نے ذمہ داری قبول کر لی۔ آپ کا نام علیؓ ہے ، ابو الحسن اور ابو تراب کنیت ہے،والد کا نام ابو طالب اور والدہ کا نام فاطمہ ہے، آپ کوحضور اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی کے علاوہ داماد ( حضرت فاطمہ ؓ کے شوہر)ہونے کا شرف حاصل تھا، بعثت کے وقت آپ کی عمر دس سال تھی جبکہ آپ نے اسلام قبول کیا، بجز غزوۂ تبوک تمام غزوات میں شریک رہے۔ آپ کے عہد خلافت میں قتل عثمانؓ کے قصاص کے معاملہ نے بہت زور پکڑا جس کو سبائی فرقہ کی سازشوں نے بہت ہوا دی جس کے نتیجہ میں دو بڑی جنگیں جنگ جمل اور جنگ صفیں پیش آئیں، جنگ جمل کے موقع پر کعب بن ثور قاضی بصرہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ تکلیف فرمائیں تو شاید خانہ جنگی رک جائے، حضرت عائشہؓ اونٹ پر سوار ہو کر خود میدان جنگ میں تشریف لے گئیں، احتیاط کی خاطر آپ کے ہودج کو زرہوں سے ڈھک دیا گیا تھا، اہل بصرہ نے ام المومنین کا ہودج دیکھا تو وہ یہ سمجھ کر کہ اُم المومنین خود لڑائی میں حصہ لینے تشریف لائی ہیں جو ش و خروش سے لڑنے لگے، حضرت علیؓ نے سوچا کہ جب تک حضرت عائشہؓ کا اونٹ کھڑا رہے گا لڑائی ختم نہ ہوگی، آپ کے اشارہ سے ایک شخص نے پیچھے سے آکر اونٹ کی پنڈلی پر تلوار ماری، اونٹ زخم کھا کر سینہ کے بل گر گیا، اونٹ کے گرتے ہی اہل جمل منتشرہو گئے ، حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ کسی بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہ کیا جائے ، کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے اور مال غنیمت نہ لوٹا جائے، پھر محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ اپنی بہن ( حضرت عائشہؓ) کو احتیاط اور حفاظت کے ساتھ اتارو اور دیکھو کہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو اور پھر حاضر خدمت ہو کر مزاج پرسی کی اور ان کے بھائی محمد بن ابی بکر کے ساتھ مدینہ روانہ کیا، اس لڑائی میں دونوں طرف سے تقریباً دس ہزار مسلمان کام آئے۔ بصرہ میں چند روز قیام کے بعد حضرت علیؓ کوفہ تشریف لائے ،جہاں ان کا پر جوش استقبال کیاگیا، چونکہ کوفہ میں آپ کے حامیوں کی کثرت تھی اس لئے آپ نے مدینہ منورہ کی بجائے اسی کو دارالخلافہ تجویز کیا، کوفہ میں قیام کے بعد آپ نے حضرت معاویہؓ کے مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں تا ہم اتمام حجت کے لئے جریربن عبداللہ بجلی کو قاصد بنا کر حضرت معاویہؓ کے پاس دمشق بھیجا اور انھیں بیعت کی دعوت دی ، حضرت معاویہؓ نے بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے قاتلین عثمان قتل کئے جائیں گے پھر سب مسلمان جمع ہو کر اپنی مرضی سے اپنا خلیفہ منتخب کرلیں گے،اب حضرت علیؓ اپنی فوج لے کر کوفہ سے نکلے اورملک شام کی طرف کوچ کرتے ہوئے دریائے فرأت کو عبور کر کے مقام صفین میں اپنا پڑاؤ ڈال دیا، حضرت معاویہؓ مسلسل بیس سال سے شام کے والی تھے، وہ بھی خون عثمان کا قصاص لینے کے لئے بے چین تھے اس لئے وہ بھی اپنی فوج لے کر نکلے، دونوں میں مصالحت کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی اور دونو ں کے درمیان لڑائی ہوئی جس میں نوے ہزار مسلمان شہید ہوئے، حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں خوارج نے بھی سر اٹھایا اور آپ کے قتل کی سازشیں کرنے لگے، چنانچہ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم حمیری نے ۱۷ رمضان ۴۰ ہجری جمعہ کو بوقت فجر مسجد میں حضرت علیؓ پر تلوار سے مسلسل دو تین وار کیا جس کی وجہ سے آپ شہید ہو گئے، آپ کی عمر ۶۳ سال ہوئی اور تقریباً چار سال نو مہینے آپ مسند خلافت پر متمکن رہے، حضرت امام حسن ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور کوفہ میں آپ کو دفن کیا گیا۔ ۵ - حضرت زبیر ؓبن عوام : حضرت زبیر ؓ قریش کے خاندان بنی اسد سے تعلق رکھتے تھے، ان کے والد عوّام اُم المومنین حضرت خدیجہؓ کے حقیقی بھائی اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ کے شوہر تھے، حضرت زبیرؓ نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، آپ ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں میں شریک رہے، آپ کی شادی حضرت ابو بکرؓ صدیق کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء سے ہوئی جن سے آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ ؓ بن زبیر پیدا ہوئے ، حضرت زبیرؓ نے اپنے فرزند حضرت عبداللہؓ کے نام پر اپنی کنیت ابو عبداللہ رکھی تھی، اور اُم المومنین حضرت عائشہؓ نے بھی اُم عبداللہ ؓ کنیت اختیار کی، حضرت زبیرؓ حواری رسول کے لقب سے مشہور ہیں، حضور اکرمﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے ، فتح مکہ کے موقع پر حضرت زبیرؓ اس دستہ کے علم بردار تھے جس میں حضور اکرمﷺ موجو د تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں مشہور جنگ یرموک میں آپ نے شرکت فرمائی اور رومیوں کے خلاف بڑی بہادری سے جہاد کیا۔ غرض کہ تمام غزوات میں شرکت کرنے سے آپ کے جسم پر بے شمار زخم آئے تھے جس کا اظہار آپ نے مرنے سے قبل اپنے ایک بیٹے سے یہ کہہ کر کیا کہ’’ میرے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جو رسول اللہ کی محبت میں زخمی نہ ہوئی ہو، جنگ جمل میں بھی آپ شریک تھے، بہادری کے ساتھ ساتھ آپ میں سخاوت اور فیاضی کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ آپ حجاز جارہے تھے تو راستہ میں عمرو ابن جزموز نے نماز کے دوران بہ حالت سجدہ آپ کو شہید کیا جبکہ آپ کی عمر ۶۴ سال تھی،یہ۳۶ ہجری کا واقعہ ہے۔ ۶ - حضرت سعد ؓبن ابی وقاص : حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی ولادت حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے ۱۹ سال قبل مکہ میں ہوئی، آپ کے والد کا اصلی نام مالک تھا؛ لیکن ابی وقاص کے نام سے مشہور ہیں، دادا کا نام وہب تھاجو حضور اکرمﷺ کے نانا تھے، حضرت سعدؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی زہرہ سے تھا، آپ کی کنیت ابو اسحق تھی۔ حضور اکرمﷺ کی بعثت کے بعدجبکہ آپ کی عمر ۱۹سال تھی آپ نے اسلام قبول کیا جس پر آپ کی والدہ بہت ناراض ہوئیں اور کھانا پینا چھوڑ دیا؛ لیکن آپ استقامت سے مذہب اسلام پر جمے رہے، تمام غزوات میں شریک رہے۔ آپ بلا کے تیر انداز تھے، چنانچہ غزوہ احد کے موقع پر آپ نے ایک ہزار تیر چلائے ، اس وقت حضور اکرمﷺ نے فرمایا تھا کہ اے سعد ! تیر پر تیر چلاؤ ، تم پر میرے ماں باپ قربان ،یہ فضیلت کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی، فن سپہ گری میں ماہر تھے، اس لئے شہسوارانِ اسلام میں ان کی بڑی قدر اور شہرت تھی، فتح مکہ کے موقع پرمہاجروں کے تین جھنڈوں میں سے ایک ان کے ہاتھ میں تھا، حضرت عمر ؓ فاروق کے عہدِ خلافت میں عجمیوں کے خلاف جو جنگ ہوئی اس میں آپ شریک تھے اور ان کے پایہ تخت مدائن کو فتح کر نے کا اعزاز آپ کوحاصل ہوا۔ ۷ - حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف : حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کا تعلق قریش کے قبیلہ بنی زہرہ سے تھا، ایام جاہلیت میں آپ کا نام عبد عمرو تھا جسے حضور اکرمﷺ نے بد ل کر عبدالرحمن کر دیا ،ابو محمد کنیت تھی، حضور اکرم ﷺ سے دس سال چھوٹے تھے۔ آپ کا آبائی پیشہ تجارت تھا لیکن آپ نے فن سپہ گری میں کمال حاصل کیا ، تیس سال کی عمر میں حضرت ابو بکرؓ صدیق کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے، ہجرت حبشہ میں آپ شریک تھے اور پھر جب حضورﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ اس میں بھی شریک تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے، غزوۂ اُحد میں آپ کے پاؤ ں پر کاری زخم آیا جس کی وجہ سے آپ کے پاؤں میں لنگ پیدا ہو گیا تھا۔ ۶ ہجری میں دومتہ الخبدل کی مہم پر امیر بنا کر بھیجے گئے، حضور ﷺ نے اپنے دست مبارک سے عمامہ باندھا اور ہاتھ میں علم دے کر دعا فرمائی۔ آپ غزوۂ تبوک میں بھی شریک تھے، اس موقع پر حضور اکرم ﷺ کی عدم موجودگی میں مسلمانوں نے آپ کو نمازفجر میں امام بنا کر نماز شروع کر دی، اتنے میں حضور اکرم ﷺ تشریف لائے اور آپ کے پیچھے ایک رکعت نماز ادا فرمائی۔ ہجرت کے بعد جب آپ مدینہ آ ئے تو مواخات کے تحت آپ کو حضرت سعدؓ بن ربیع الغاری کا بھائی بنا یا گیا جن کی دو بیویاں تھیں، ان کی خاطر ایک بیوی کو طلاق دینے پر آمادہ ہو گئے تا کہ حضرت عبدالرحمنؓ ان سے نکاح کر سکیں؛ لیکن انھوں نے دعا دے کر سب کچھ لوٹا دیا اور گھی اور پنیر کی تجارت شروع کی جس میں اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور وہ جلد ہی بڑے مالدار تاجر بن گئے اور راہ خدا میں بے دریغ خرچ کرنے لگے۔ حضرت ابو بکرؓ صدیق اور حضرت عمرؓ فاروق کے دورِ خلافت میں آپ مشیر رہے،۳۵ ہجری میں آپ نے وفات پائی جبکہ آپ کی عمر ۷۵ سال تھی۔ ۸ -حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح : آپ کانام عامر اور کنیت ابو عبیدہ تھی، باپ کا نام عبداللہ اور دادا کا نام الجرّاح تھا، آنحضرت ﷺ سے تین سال چھوٹے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ صدیق کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے، ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں شریک تھے، حضور ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہو کر کافروں کے خلاف جہاد کیا۔ غزوہ بدر میں جب ان کے کافر باپ مقابلہ میں آئے تو خون کے رشتہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں قتل کیا، غزوہ اُحد میں حضور اکرمﷺ کی پیشانی سے خود کی کڑیاں نکالتے ہوئے آپ کے دو دانت شہید ہوئے، فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ نے آپ کو پیدل دستہ کا امیر مقررکیا تھا۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، انھوں نے ایک امین شخص کو ساتھ بھیجنے کے لئے حضور ﷺ سے درخواست کی جس پر حضور ﷺ نے حضرت ابو عبیدہؓ کا انتخاب فرما کر کہا کہ ابو عبیدہؓ اس اُمت کے امین ہیں ، اسی لئے آپ کو امین الامت کہا جاتا ہے ، حضرت ابو عبیدہؓ نے فوجی نظام کو مستحکم کیا اور اسلامی فتوحات میں شریک رہے، وہ فنون جنگ کے ماہر اور تجربہ کار سپہ سالار تھے،۱۸ ہجری میں مرض طاعون میں مبتلاء ہوئے اور موضع فحل میں وفات پائی ، عمر تقریباً ۵۸ سال تھی۔ ۹ - حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ : آپ کا نام طلحہ اور کنیت ابو محمد تھی، قریش کے قبیلہ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی ولادت حضور ﷺ کی ہجرت مدینہ سے ۲۴سال قبل مکہ میں ہوئی تھی، حضوراکرمﷺ نے آپ کو طلحہ الخیر ابو الجواداورطلحہ الضیامن کے القاب عطافرمائے۔ آپ کا پیشہ تجارت تھا جس کی خاطر دور دراز کے سفر کرتے تھے، آپ ابتدائی ایمان لانے والو ں میں سے ہیں او ر اسلام کی خاطر آپ نے کفار کی بہت سختیاں برداشت کی تھیں۔ سفر ہجرت میں حضر ت طلحہؓ شام سے آتے ہوئے حضور ﷺ سے راستہ میں ملے اور آپﷺ کی خدمت میں شامی کپڑوں کے تحفے پیش کئے، مکہ پہنچنے کے بعد اپنے کاروبار سمیٹ کر خود مدینہ کو ہجرت کئے۔ غزوہ بدر کے موقع پر حضوراکرمﷺ نے حضرت طلحہؓ اور حضرت سعید ؓ بن زید کو قریش کی ٹوہ لگانے کے لئے بھیجا تھا، جب وہ وہاں سے واپس آئے تو جنگ ختم ہو چکی تھی؛ لیکن حضور اکرمﷺ نے مال غنیمت میں حصہ دیا۔ غزوۂ اُحد میں حضرت طلحہؓ نے بڑی بہادری سے کافروں کا مقابلہ کیا اور حضور ﷺ کی حفاظت کی خاطر تیرو ں کو اپنے ہاتھوں اور پیٹھ پر روکااور پھر حضور ﷺ کو اپنی پیٹھ پرسوار کر کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے، اس موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ، طلحہ کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ غزوۂ اُحد میں حضرت طلحہؓ کے جسم پر سترّ سے زیادہ زخم آئے، اس لئے حضرت ابو بکر ؓ صدیق فرماتے ہیں کہ اُحد کا دن طلحہؓ کا دن تھا، حضرت عمرؓ انھیں صاحب اُحد کہتے تھے، تمام غزوات میں حضورﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ حضرت طلحہؓ نے چار نکاح کئے تھے اور ان کی ہر بیوی حضور اکرم ﷺ کی کسی نہ کسی زوجہ کی بہن تھی۔ ۱۰ - حضرت سعیدؓ بن زید: حضرت سعیدؓ مکہ میں پیدا ہوئے ، قریش کے قبیلہ بنی عدی سے تعلق تھا، ان کی کنیت ابو الاعور تھی، حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی تھے اور بہنوئی بھی، دونوں میاں بیوی ابتدائی دور ہی میں اسلام قبول کئے اور حضرت خبابؓ بن ارت سے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے، حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہؓ بنت خطاب جو حضرت سعیدؓ کی بیوی تھیں حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کا باعث ہوئیں۔ حضور اکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ کے موقع پر آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ آگئے، غزوہ ٔ بدر کے موقع پر حضور ﷺ نے آپ کو قریش کے قافلہ کا پتہ لگانے کے لئے شام بھیجا تھا، جب وہاں سے واپس ہوئے تو جنگ ختم ہو چکی تھی ؛لیکن حضور ﷺ نے مال غنیمت میں حصہ دیا، حضور ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں یرموک اور دمشق کی جنگوں میں حصہ لئے او ربڑی بہادری سے دشمنوں کا مقابلہ کئے۔ آپ نے ستر سال کی عمر بمقام عتیق میں وفات پائی، سن وفات ۵۰ ہجری اور ۵۵ ہجری کے درمیان ہے۔