انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فروع میں ظنیت آجائے توحرج نہیں محدثِ کبیر حضرت مولانا بدرِعالم میرٹھی ثم المدنی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: "فروع میں اگرظنیت ہوتوکوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کی مثال بالکل قانونی دفعات کی سمجھے، قانون کے الفاظ اپنے اجمال کے ساتھ قطعی ہوتے ہیں اور اس کی ضمنی دفعات وتشریحات بسااوقات ظنی ہوتے ہیں، اس لیے ان میں ہرعدالت کواختلاف کرنے کی گنجائش مل جاتی ہے، امام شاطبی نے مقدمات کتاب کے پہلے مقدمہ میں اس موضوع پر مفصل بحث کی ہے؛ پس فروعی مسائل کے ظنی ہونے میں کوئی اشکال نہیں، نہ ان مسائل کے تسلیم کرنے سے دین کی بنیاد کاظنی ہونا ثابت ہوتا ہے"۔ (ترجمان السنۃ:۱/۱۸۵) حدیث کے ظنی الثبوت ہونے پر تشویش کرنے والوں کوسوچنا چاہئے کہ قرآن کا ایک ایک حرف اگرچہ متواتر ہے؛ لیکن اس کے باوجود جومسائل اس سے مستنبط ہوتے ہیں ان میں سے ایک ایک کے قطعی اور یقینی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، بہت سے مسائل ایسے ہوں گے جوگوقرآن سے مستنبط ہوں؛ لیکن ان کی دلالت اپنےمدلول پر ظنی ہو تواگر احتمال ظنی سے حدیث چھوڑی جاسکے گی توکیا اسی راہ سے قرآن کے بہت سے مسائل بھی پادر ہوا نہ ہوجائیں گے، فرق رہ جائے گا توصرف یہی کہ حدیث میں ظن ثبوت سے آرہا ہے اور ان قرآنی احکام میں دلالت کی راہ سے، باقی رہا نتیجہ سو وہ صاف ہے، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ھ) فرماتے ہیں: "کسی متواتر کا قطعیت کومفید ہونا، اس پر موقوف ہے کہ اس کے جمیع مقدمات بھی متواتر ہوں؛ لیکن اگراس کے مقدمات ظنی ہیں تووہ پھر ظن ہی کومفید ہوگا، مثلاً ہرکلام کا سمجھنا لغت اور نحویوں کی رائے پر بھی موقوف ہے؛ پس اگر کسی مسئلہ نحوی میں نحویوں کی رائے مختلف ہے یاکسی لغت میں اہل لغت کا اختلاف ہے تواس اختلاف کا اثر اس متواتر کلام کے مفہوم پر بھی ضرور پڑتا؛ کیونکہ جن امور پر اس کلام کے مفہوم کاسمجھنا موقوف ہے جب وہی ظنی ہیں توپھر اس کلام کومفید قطع کیسے سمجھا جاسکتا ہے"۔ (الموافقات:۱/۳۵) ہاں جہاں ثبوت اور دلالت دونوں قطعی ہوجائیں تو ان متواترات دین کا انکار کہیں نہیں کیا جاسکتا، نہ تواتراسناد کا نہ تواتر معنی کا، نہ تواتر طبقہ کا، نہ عمل طبقہ کا، نہ توارث وتعامل کا، نہ تواتر قدرمشترک کا، کسی تواتر سے ثابت ہونے والے کسی دینی مسئلے کا انکار جائز نہیں، ہاں تواتر قدر مشترک سے ثابت ہونے والے مسئلے میں ضرور کچھ تفصیل کی گنجائش ہے کہ اگرمسئلہ نظری ہوتوہوسکتا ہے کہ اس کا انکار کفر نہ ہو؛ لیکن اگرمسئلہ بدیہی ہے تووہ اپنے مفہوم میں عام فہم ہے سو اس کا منکر کافر ٹھہرے گا، حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ فرماتے ہیں: "والتواتر عندي أيضاً على أربعة أقسام: أحدها: تواتر الإسناد..... وهذا التواتر تواتر المحدثين، والثاني: تواتر الطبقة..... وهذا تواتر الفقهاء، تواتر التعامل..... وهذا التواتر قريب من التواتر الثاني، ومثال هذا التواتر العمل برفع اليدين عند الركوع وتركه فإنه عمل به غير واحد في القرون الثلاثة والرابع: تواتر القدر المشترك..... وحكم الثلاثة الأول تكفير جاحده وأماالرابع: فإن كان ضرورياً فكذلك، وإن كان نظرياً فلا"۔ (ترجمان السنۃ:۱/۱۸۴) ترجمہ: اورمیرے نزدیک تواتر کی بھی چار قسمیں ہیں (۱)تواتر اسناد اسے تواتر محدثین بھی کہتے ہیں، تواتر طبقہ اسے تواتر فقہا کہتے ہیں (۲)تواتر تعامل اور (۴)تواتر قدر مشترک پہلے تین تواتر ایسے ہیں کہ انکا منکر کافر ٹھہرتا ہے، چوتھے تواتر کا موضوع اگرضروریات کے درجےمیں ہے تووہ بھی اسی حکم میں ہے اوراگر نظری درجے کا ہے تواس کے منکر کوکافر نہ کہا جائیگا۔