انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حجاز ویمن میں بدامنی جیسا کہ اوپرمذکور ہوچکا ہے ابوالسرایا نے آل ابی طالب ہی کوصوبوں اور ولایتوں کی حکومت پرمقرر کیا تھا، ہرجگہ حکومتِ عباسیہ کے خلاف علوی ہی مصروفِ عمل تھے، یہ ابوالسرایا کی دانائی ہی تھی کہ اس نے علویوں کوصوبوں اور ولایتوں کی حکومتیں دے کربظاہر اپنی حکومت کوعلوی حکومت بنادیا تھا ابوالسرایا کا خاتمہ ہوگیا؛ لیکن اکثرعلوی جوصوبوں پرقابض ومتصرف ہوچکے تھے؛ انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی خلافت قائم کرنے کی جدوجہد میں برابر مصروف رہے، قتلِ امین کے بعد علویوں کونہایت ہی زرین موقعہ ہاتھ آگیا تھا؛ کیونکہ خود مامون پرجن لوگوں نے قبضہ حاصل کرلیا تھا یعنی فضل وحسن ابنانِ سہل بھی ایرانی النسل ہونے کے سبب آلِ ابی طالب کوآل عباس سے بہتر سمجھتے تھے اور اُن کا میلانِ خاطر علویوں کی طرف زیادہ تھا۔ مامون نے خود جعفر برمکی سے تربیت پائی تھی، اس لیے اس کے دلمیں بھی سادات کی عزت وتوقیر بہت زیادہ تھی اور اس کے وزیراعظم کوبہترین موقع حاصل تھا کہ وہ امین کے قتل سے فارغ ہونے کے بعد سلطنت کا رُخ علویوں کی جانب پھیردے؛ مگرہرثمہ بن اعین کی فوجی قابلیت نے ابوالسرایا کا خاتمہ کرکے عراق کوصاف کردیا اور علویوں کے طرزِ حکومت نے اُن کوحجاز ویمن میں ناکام رکھا، جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ جب ابوالسرایا نے حسین افطس یعنی حسین بن حسن بن علی بن حسین کومکہ کا حاکم بناکر روانہ کیا تواتفاقاً مکہ میں ہارون الرشید کا مشہور خادم مسرورمعہ ہمراہیوں کے گیا ہوا تھا، اس زمانہ میں مامون کی طرف سے مکہ کا عامل داؤد بن عیسیٰ بن موسیٰ عباسی تھا، مسرور اور داؤد نے مکہ میں حسین افطس کے آنے کی خبر سن کرآلِ عباس اور ہمدردانِ آلِ عباس کا ایک جلسہ منعقد کرکے مشورہ کیا کہ اب ہم کوکیا کرنا چاہیے، مسرور اور دوسرے لوگوں نے مقابلہ اور جنگ کرنے کی رائے دی؛ مگرداؤد نے کہا کہ میں حرم شریف میں قتل وخون ریزی کوپسند نہیں کرتا؛ اگرحسین افطس مکہ میں ایک طرف سے داخل ہوا تومیں دوسری طرف سے نکل جاؤں گا۔ مسرور یہ سن کرخاموش ہوگیا اور داؤد نے حسین افطس کے قریب پہنچنے کی خبر سن کرعراق کی طرف کوچ کردیا، یہ دیکھ کرمسرور بھی مکہ سے چل دیا، حسین افطس مکہ سے باہر مقیم اور داخل ہونے میں متأمل تھا اس نے جب یہ سنا کہ مکہ آلِ عباس سے خالی ہوگیا ہے تووہ صرف دس آدمیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا، طواف کیا اور ایک شب مکہ میں مقیم رہ کراپنے اور ہمراہیوں کوبھی بلاکر مکہ پرقبضہ کرلیا اور حکومت کرنے لگا، ابراہیم بن موسیٰ بن جعفر صادق نے یمن میں پہنچ کرمامون کے عامل اسحاق بن موسیٰ بن عیسیٰ کویمن سے بھگادیا اور یمن پرقابض ومتصرف ہوکر حکومت شروع کی، حسین افطس نے خانہ کعبہ کا غلاف اُتارکردوسرا غلاف جوابوالسرایا نے کوفہ سے بھیجا تھا چڑھایا، بنوعباس کے مال واسباب اور گھروں کولوٹ لیا ان کی امانتوں کوبجبرلوگوں سے چھین لیا؛ پھرعام مکہ والوں کے مال واسباب پرقبضہ کرنا شروع کیا، کعبہ شریف کے ستونوں پرجس قدر سونا چڑھا ہوا تھا اس کواُتارلیا، خانہ کعبہ کے خزانہ میں جس قدر نقد وجنس تھا سب کونکال کراپنے ہمراہیوں میں تقسیم کردیا۔ حسین افطس کے ہمراہیوں نے حرم شریف کی جالیوں کوتوڑ ڈالا، اُدھر ابراہیم نے یمن میں پہنچ کرقتل وغارت کا بازار گرم کردیا اور بے گناہوں کوبکثرت قتل کرنے کی وجہ سے قصاب کا خطاب پایا؛ چنانچہ ابراہیم قصاب کے نام سے اب تک تعبیر کیا جاتا ہے، علویوں کے دوسرے سرداروں نے بھی جوابراہیم بن موسیٰ اور حسین افطس کی طرف سے فوجوں اور علاقوں کی طرف سے سرداریاں رکھتے تھے لوٹ مار اور قتل وغارت میں کمی نہیں کی، زید بن موسیٰ کا حال اوپر پڑھ چکے ہو کہ بصرہ میں ظلم وستم کا بازار گرم کرکے زیدالنار کا خطاب پایا تھا؛ غرض علویوں نے ابوالسرایا کی طرف سے حکومتیں پاکر اپنی چند روزہ حکمرانی میں ایک اودھم مچادی اور غالباً ان کا یہ ظالمانہ وسفاکانہ طرزِ عمل ہی ان کی ناکامی ونامرادی کا باعث ہوا، جب مکہ میں ابوالسرایا کے قتل کی خبر پہنچی تواہلِ مکہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے، حسین افطس نے محمد بن جعفر صادعق بن محمد باقر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کے پاس جاکر کہا کہ یہ موقعہ بہت مناسب ہے، لوگوں کے قلوب آپ کی طرف بہت مائل ہیں، ابوالسرایا مارا جاچکا ہے، آپ اپنی خلافت کی لوگوں سے بیعت لیں، میں آپ کے ہاتھ پربیعت کیے لیتا ہوں؛ پھرکوئی شخص آپ کی مخالفت نہ کرے گا، محمد بن جعفر ملقب بہ دیباچہ عالم نے انکار کیا؛ مگرحسین افطس اور محمد بن جعفر کا لڑکا علی دونوں برابر اصرار کرتے رہے، آخر محمد بن جعفر بیعت لینے پرآمادہ ہوگئے، لوگوں نے اُن کی بیعت کرلی اور وہ امیرالمؤمنین کے لقب سے پکارے جانے لگے؛ مگراس کے بعد حسین افطسن اور محمد بن جعفر کے بیٹے علی نے بداعمالیوں پرکمرباندھی، دونوں نے یہاں تک زناکاری میں ترقی کی کہ مکہ کی عورتوں کواپنی عصمت کا بچانا دشوار ہوگیا، سرِبازار عورتوں اور مردوں کوبے عزت کرنے لگے اوباش لوگوں کی ایک جماعت اُن کے ساتھ ہوگئی اور یہ رات دن ان افعالِ شنیعہ میں مصروف رہنے لگے۔ مکہ کے قاضی محمد نامی کا لڑکا اسحاق بن محمد ایک روز بازار میں جارہا تھا، علی بن محمد بن جعفر یعنی امیرالمؤمنین کے صاحبزادے نے اُس کوپکڑواکر بلوالیا اور اپنے گھر میں بند کرلیا، لوگوں نے یہ حالت دیکھ کرایک جلسہ کیا اور سب اس بات پرمتفق وآمادہ ہوگئے کہ محمد بن جعفر صادق کومعزول کیا جائے اور قاضی مکہ کے لڑکے کوعلی بن محمد کے پاس سے واپس چھڑایا جائے؛ لوگوں نے شوروغل مچاتے ہوئے محمد بن جعفر امیرالمؤمنین کا گھر جاگھیرا توانہوں نے لوگوں سے امان طلب کی اور خود اپنے بیٹے علی کے گھر میں گئے تووہاں اس لڑکے کوموجود پایا اور علی سے لے کرلوگوں کے حوالے کیا اوپر پڑھ چکے ہو کہ ابراہیم بن موسیٰ کاظم المعروف بہ ابراہیم قصاب نے یمن کے عامل اسحاق بن موسیٰ بن عیسیٰ کوبھگادیا تھا۔ اسحاق بن موسیٰ یمن ہی میں موقعہ کا منتظر روپوش رہا، اب علویوں کی اس ظالمانہ حکومت اور لوگوں کی نفرت کودیکھ کراُس نے ایک لشکر بآسانی فراہم کرلیا، ابراہیم بھی یمن سے مکہ آیا ہوا تھا، اسحاق نے یمن سے روانہ ہوکر مکہ پرحملہ کیا، علویوں نے اردگرد کے بدوؤں کوجمع کیا اور خندقیں کھودکر اسحاق کے مقابلے پرمستعد ہوگئے، اسحاق نے اوّل توصف آرائی کی؛ مگرپھرکچھ سوچ کروہاں سے سیدھا عراق کی جانب چل دیا، ادھر حسن بن سہل نے عراق سے فارغ ہوکر ہرثمہ بن اعین کوحجاز ویمن کے فسادات مٹانے کی طرف توجہ دلائی، ہرثمہ نے رجاء بن جمیل اور جلووی کوایک فوج دے کرمکہ کی جانب روانہ کیا، ہرثمہ کا فرستادہ یہ لشکر ادھر سے جارہا تھا اُدھر سے اسحاق آرہا تھا، راستے میں دونوں سے ملاقات ہوئی، اسحاق بھی ان لوگوں کے ساتھ مکہ کی جانب لوٹ پڑا وہاں پہنچ کرعلویوں کومقابلہ پرمستعد پایا، سخت معرکہ آرائی کے بعد علویوں کوشکست ہوئی اور عباسی لشکر فتح مند ہوکر مکہ میں داخل ہوا۔ محمد بن جعفر نے امان طلب کی ان کوامان دی گئی محمد بن جعفر مکہ سے حجفہ اور حجفہ سے بلادِ جہنیہ کی طرف چلے گئے وہاں انہوں نے لشکر جمع کرنا شروع کیا، جب ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا تومدینہ منورہ کی طرف چلے گئے وہاں انہوں نے لشکر جمع کرنا شروع کیا، جب ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا تومدینہ منورہ پرحملہ کیا، مدینہ کے عامل ہارون بن مسیب نے مقابلہ کیا، متعدد لڑائیاں ہوئیں، آخردیباچہ عالم محمد بن جعفر صادق نے شکست فاش کھائی اور بلادجہنیہ کی طرف سے واپس آئے؛ اسی لڑائی میں ایک آنکھ بھی جاتی رہی اور ہمراہی ان کے بہت زیادہ مارے گئے، اگلے سال موسم حج میں رجائ بن جمیل اور جلووی سے جوابھی تک مکہ کی حکومت پرمامور تھے امان حاصل کرکے مکہ میں آئے اور لوگوں کوجمع کرکے خطبہ دیا کہ میں جانتا تھا کہ مامون الرشید فوت ہوچکا ہے؛ اسی لیے میں نے لوگوں سے بیعت لی تھی، اب صحیح خبر پہنچ گئی ہے کہ مامون زندہ ہے؛ لہٰذا میں تم لوگوں کواپنی بیعت سے سبکدوش کرتا ہوں، حج ادا کرنے کے بعد سنہ۲۰۱ھ میں حسن بن سہل کے پاس بغداد چلے گئے، اُس نے مامون کے پاس بھیج دیا، مامون نے ان کوعزت سے رکھا، جب مامون مرو سے عراق کی جانب روانہ ہوا توراستے میں بمقام جرجان فوت ہوئے۔