انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عہدِ یزیدی کی فتوحات سلسلہ کلام میں ہم یزید کی وفات تک پہنچ گئے؛ لیکن یہ تذکرہ رہ گیا تھا کہ عقبہ بن نافع بانی شہر قیروان افریقہ سے دمشق کی جانب امیرمعاویہ کے پاس چلے آئے تھے اور ابوالمہاجر کی شکایت تھی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تم کوپھرافریقہ کی سپہ سالاری پربھیج دیں گے، ابھی یہ وعدہ پورا نہ ہوا تھا کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے، یزید نے تختِ خلافت پربیٹھ تے ہی عقبہ کوافریقہ کی سپہ سالاری پرنامزد کرکے افریقہ کی طرف روانہ کیا، عقبہ نے قیروان پہنچ کرابوالمہاجر کوگرفتار کرکے قید کردیا، اس قید کا سبب یہ تھا کہ ابوالمہاجر نے اپنے عہد حکومت میں عقبہ کوناجائز طور پربراکہنے اور بدنام کرنے کی کوشش کی تھی؛ اسی حالتِ قید میں ابوالمہاجر فوت ہوا اور مرنے سے پہلے عقبہ بن نافع کووصیت کرگیا کہ ایک بربری نومسلم مسمی کسیلہ سے ہوشیار رہنا، کسیلہ کوابوالمہاجر نے مسلمان کیا تھا، وہ اس کے مزاج وعادات سے واقف ہونے کی وجہ سے جانتا تھا کہ عقبہ نے چونکہ مجھ کوقید کیا ہے، اس لیئے کسیلہ موقع پاکر ضرور عقبہ سے انتقال لے گا، عقبہ بن نافع نے اس بات کی طرف کچھ زیادہ توجہ نہ کی اور کسیلہ کوبدستور اپنی فوج کے ایک چھوٹے حصے پرسردار رہنے دیا۔ سنہ۶۲ھ میں عقبہ بن نافع نے اپنے بیٹوں کوبلاکروصیت کی اور کہا کہ میں راہِ خدا میں جہاد کی غرض سے روانہ ہوتا ہوں اور دل سے خواہش مند ہوں کہ مجھ کودرجہ شہادت حاصل ہو اس کے بعد زہیر بن قیس بلوی کومختصر فوج کے ساتھ قیروان کی حفاظت کے لیئے چھوڑ کراور خود مجاہدین کا لشکر لےکر مغرب کی جانب روانہ ہوئے، شہر باغانہ پررومی لشکر سے مقابلہ ہوا، سخت لڑائی کے بعد رومی فرار ہوئے؛ پھرشہر اربہ پررومیوں نے دوبارہ سخت مقابلہ کیا، اس لڑائی میں بھی ان کوہزیمت ہوئی، مسلمانوں کی فتوحات کے سیلاب کوبڑھتے ہوئے دیکھ کررومیوں نے بربریوں کوجوابھی تک عیسائی مذہب میں بھی داخل نہ ہوئے تھے، اپنے ساتھ ملایا اور مسلمانوں کی تھوڑی سی جمعیت میں کے مقابلے میں رومیوں اور بربریوں کی افواج کثیر نے میدان میں قدم جمایا، خون ریز جنگ کے بعد مسلمانوں کوفتح کامل حاصل ہوئی، آخر شہرطنجہ پررومی بطریق سے آخری مقابلہ ہوا جس میں اس رومی گورنر نے اپنے آپ کوعقبہ بن نافع کے حوالے کردیا، عقبہ نے اس کوآزاد کردیا اور شہرطنجہ کوکوئی نقصان پہنچائے بغیر آگے بڑھے، تمام ملک مراقش کوفتح کرتے ہوئے بحرظلمات یعنی بحراطلانطک کے ساحل تک پہنچ گئے، ساحلِ سمندر پرپہنچ کرعقبہ نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال کرکہا کہ: الہٰی یہ سمندر اگرمیرے راستے میں حائل نہ ہوجاتا توجہاں تک زمین ملتی میں تیری راہ میں جہاد کرتا ہوا چلاجاتا۔