انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت رافع بن ؓ مالک نام ونسب رافع نام، ابو مالک وابو رفاعہ کنیت، قبیلہ خزرج سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے،رافع بن مالک بن العجلان بن عمرو بن عامر بن زریق بن عامر بن عبدحارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج اسلام انصار مدینہ میں اگرچہ خوش نصیبوں کی ایک جماعت ہے جس کا شمار ۷۰ تک ہے ؛لیکن ان میں بھی الا قدم فالاقدم کے لحاظ سے ترتیب اوراختلاف مدارج ہے،انصار میں بنو نجار اورقبیلۂ خزرج سبقتِ ایمانی میں سب سے پیش تھا ؛لیکن اس کا یہ تمام تقدس یہ تمام شرف اور یہ تمام فضیلت صرف دوہستیوں کے شرف وعظمت پر منحصر ہے اور یہ دونوں بزرگ حضرت معاذ بن غفرؓ اورحضرت رافع بن مالکؓ ہیں۔ قبیلۂ خزرج کے ۶ آدمی جن میں یہ دونوں آدمی بھی تھے،عمرہ کی غرض سے مکہ گئے تھے، آنحضرتﷺ ان کے قیام گاہ پر تشریف لائے اوراسلام کی تبلیغ کی تو سب سے پہلے اس دعوت کو انہی دونوں نے لبیک کہا۔ یہ اسد الغابہ کی روایت ہے طبقات میں ہے کہ صرف دو شخص گئے تھے ان کو آنحضرتﷺ کی خبر ملی تو خدمت میں حاضر ہوکر مذہب اسلام اختیار کرنے کا شرف حاصل کیا۔ ان دونوں بزرگوں میں بھی جیسا کہ سعد بن عبدالحمید کا قول ہے ،حضرت رافع ؓ نے پہلے بیعت کی تھی۔ اسلام قبول کرکے پلٹے تو مدینہ میں نہایت سرگرمی سے اشاعتِ اسلام کی خدمت انجام دی،مصنف اسد الغابہ لکھتے ہیں: فلما قدموا المدينة ذكروا لقومهم الإسلام ودعوهم إليه، فشفا فيهم، فلم تبق دار من دور الأنصار إلا وفيها ذكر من رسول الله صلى الله عليه وسلم (اسد الغابہ،باب رافع بن مالک بن العجلان:۱/۳۵۲) یعنی جب یہ لوگ مدینہ آئے اور اپنی قوم میں اسلام کا چرچا کیا تو اس کی دعوت دی تو اسلام تمام انصار میں پھیل گیا اب کوئی گھر نہ تھا جہاں رسول اللہ ﷺ کا ذکر خیر نہ ہوتا ہو۔ دوسرے سال حضرت رافع ۱۲ ، آدمیوں کے ساتھ اور تیسرے سال ۷۰ آدمیوں کے ساتھ مکہ گئے اور اس اخیر بیعت میں بنو زریق کے نقیب منتخب ہوئے۔ صحیح بخاری میں رافعؓ کے عقبہ میں شریک ہونے کا ذکر آیا ہے،چنانچہ ان کا قول ہے: مَا يَسُرُّنِي أَنِّي شَهِدْتُ بَدْرًا بِالْعَقَبَةِ (بخاری،شہدو الملائکۃ بدرا،حدیث نمبر:۳۶۹۳) یعنی مجھے یہ خوش نہیں آتا کہ عقبہؓ کے مقابلہ میں بدر میں شریک ہوتا۔ غزوات حضرت رافعؓ کی اسلامی زندگی کے دوران میں صرف دو لڑائیاں پیش آئیں، بدر اوراحد، بدر میں ان کی شرکت مشکوک ہے،ابن اسحاق نے ان کو اصحاب بدر میں شمار نہیں کیاہے اور موسیٰ بن عقبہ نے امام بن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ وہ شریک تھے،اس باب میں بہترین حکم خود ان کا قول ہوسکتا ہے ، ابھی بخاری کی جو عبارت اوپر گزری ہے کہ "مجھے یہ خوش نہیں آتا کہ عقبہ کے مقابلہ میں میں بدر میں شریک ہوتا "اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شریک بدر نہ تھے۔ شہادت شوال ۳ھ میں غزوہ احد میں شہادت پائی۔ خدماتِ مذہبی اشاعت اسلام کے علاوہ اور بھی متعدد مذہبی خدمتیں انجام دیں، سورۂ یوسف مدینہ میں سب سے پیشتر انہی نے پہنچائی ،مسجد بنی زریق میں مدینہ کی تمام مسجدوں سے قبل قرآن مجید پڑھا گیا،اس کے پڑھنے والے یہی بزرگ تھے،بیعت سے واپسی کے وقت آنحضرتﷺ پر مکہ میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا لکھ کر ساتھ لیتے آئے تھے اوراپنی قوم کو جمع کرکے سنایا تھا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ مکہ میں مقیم ہوگئے تھے، جب سورہ طہ نازل ہوئی تو لکھ کر مدینہ لائے،غرض یہ عظیم الشان کارنامے انصار کے اس جلیل المنزلت بزرگ کے تھے،جس نے دولت ایمان کے لازوال خزانے کو سب سے پہلے اپنے آغوش میں جگہ دی ،فنصر اللہ عبد انصر الاسلام بنفسہ ومالہ ودمہ۔