انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دوزخ سے نکال کرجنت میں داخل کئے جانے والوں کے حالات گیارہ گنا دنیا کے برابر جنت: حدیث:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنِّي لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْهَا وَآخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ حَبْوًا فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: اذْهَبْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ فَيَأْتِيهَا فَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهَا مَلْأَى فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ يَارَبِّ وَجَدْتُهَا مَلْأَى فَيَقُولُ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لَہُ اذْهَبْ وَادْخُلْ الْجَنَّةَ فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا فَيَقُولُ اتَسْخَرُ بِیْ وَأَنْتَ الْمَلِكُ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ تَوَاجِذُهُ فَكَانَ يَقُولُ ذَاكَ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً۔ (البدورالسافرہ:۱۶۴۲۔ بخاری:۱۱/۴۱۸) ترجمہ:دوزخیوں میں سے اس آخری نکلنے والے کواور آخرمیں اہلِ جنت میں شامل ہونے والوں میں اس آدمی کومیں جانتا ہوں جودوزخ سے سرین کے بل گھسٹ کرنکلے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے جاجنت میں داخل ہوجا، جب وہ اس کے پاس پہنچے گا تواس کے خیال میں یہ ڈالا جائے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے چنانچہ وہ لوٹ کرعرض کریگا یارب وہ تومجھے سب بھری ہوئی نظر آرہی ہے، اللہ تعالی ارشاد فرمائیں گے جاجنت میں داخل ہوجا تجھے دنیا کے برابر اور اس سے مزید دس گنا جنت دی جاتی ہے وہ عرض کریگا آپ مالک الملک ہوکر مجھ سے مذاق کررہے ہیں (حالانکہ یہ مذاق نہیں ہوگا؛ بلکہ حقیقت ہوگی، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ اتنا ہنسے کہ آپ کی ڈاڑھیں مبارک نظر آنے لگیں کہا جاتا تھا کہ یہ شخص اہل جنت میں سب سے کم مرتبہ پرفائز ہوگا۔ فائدہ:اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ادنیٰ اور اخیر میں جنت میں داخل ہونے والے کودنیا کے گیارہ گنا کے برابر جنت عطاء کی جائے گی۔ اخیر میں جنت میں داخل ہونے والے کی حکایت: حدیث:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ فَهُوَ يَمْشِي مَرَّةً وَيَكْبُو مَرَّةً وَتَسْقَفُهُ النَّارُ مَرَّةً فَإِذَا جَاوَزَهَا الْتَفَتَ إِلَيْهَا فَقَالَ تَبَارَكَ الَّذِي أَنْجَانِي مِنْكِ لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ شَيْئًا مَاأَعْطَاهُ أَحَدًا مِنْ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا فَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ لَهُ اللَّهُ يَاابْنَ آدَمَ فَلَعَلِّي إِذَاأَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا فَيَقُولُ لَايَارَبِّ وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَايَسْأَلَهُ غَيْرَهَا قَالَ وَرَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَعْذُرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَالَاصَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنْ الْأُولَى فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ هَذِهِ فَلْأَشْرَبْ مِنْ مَائِهَا وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا لَاأَسْأَلُكَ غَيْرَهَا فَيَقُولُ ابْنَ آدَمَ أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا..... فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا سَمِعَ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِيهَا فَيَقُولُ..... أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا..... قَالَ أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ إِنِّي لَاأَسْتَهْزِئُ مِنْكَ وَلَكِنِّي عَلَى مَاأَشَاءُ قَدِيرٌ۔ (مسنداحمد بن حنبل، حدیث نمبر:۳۸۹۹، شاملہ،الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة ترجمہ:سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا وہ شخص ہوگا جوکبھی چلتا ہوگا کبھی سرین کے بل گھسٹتا ہوگا اور کبھی دوزخ کی آگ اس کوجھلس دیتی ہوگی، جب وہ دوزخ سے نکل جائے گا تواس کودیکھ کرعرض کریگا: اے باری تعالیٰ! آپ نے مجھے اس سے نجات عطاء فرمادی ہے اور وہ عنایت فرمائی ہے جونہ تواگلوں کونصیب ہوئی نہ پچھلوں کو؛ پھراس آدمی کے سامنے ایک درخت کوظاہر کیا جائے گا تویہ اس کودیکھ کرعرض کریگا یارب! آپ مجھے اس درخت کے قریب کردیں میں اس کے سایہ میں بیٹھنا چاہتا ہوں اور اس کا پانی پینا چاہتا ہوں، اللہ تبارک وتعالیٰ پوچھیں گے، اے ابن آدم! اگر میں تمھیں یہ دیدوں تو (اس کے علاوہ) کسی اور چیز کا طلب بھی کریگا؟ وہ عرض کریگا نہیں، یارب اور اللہ سے معاہدہ کریگا کہ میں اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں مانگوں گا اور اور اس کا رب اس کے عذر کوقبول کرتا رہے گا کیونکہ وہ شخص ایسی چیزوں کودیکھے گا، جن پروہ صبر نہیں کرسکتا؛ پھرپہلے درخت سے بھی زیادہ حسین درخت اس کو سامنے سے دکھایا جائیگا تووہ شخص کہے گا یارب! مجھے اس کے درخت کے قریب کردیں؛ تاکہ میں اس کا پانی پی سکوں اور اس کے سائے میں بیٹھ سکوں میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے اے ابن آدم! تونے میرے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تھا کہ تومجھ سے اس کے علاوہ کچھ نہیں مانگے گا؟چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کواس درخت کے قریب کردیں گے جب وہ اس کے قریب پہنچ جائے گا، توجنت والوں کی آوازیں سنے گا اور عرض کریگا اے رب! مجھے آپ جنت میں داخل کردیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھے یہ پسند ہے کہ میں تجھے دنیا اور اس کے برابر مزید جنت عطا کردوں؟ وہ عرض کریگا یارب آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؛ حالانکہ آپ رب العالمین ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں تم سے مذاق نہیں کررہا ہے؛ بلکہ میں جوچاہوں اس (کے کرنے) کی طاقت رکھتا ہوں۔ جنت میں داخل ہونے والے ایک اور دوزخی کی حکایت: حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ عَبْدًا فِي جَهَنَّمَ لَيُنَادِي أَلْفَ سَنَةٍ يَاحَنَّانُ يَامَنَّانُ قَالَ فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِجِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام اذْهَبْ فَأْتِنِي بِعَبْدِي هَذَا فَيَنْطَلِقُ جِبْرِيلُ فَيَجِدُ أَهْلَ النَّارِ مُكِبِّينَ يَبْكُونَ فَيَرْجِعُ إِلَى رَبِّهِ فَيُخْبِرُهُ فَيَقُولُ ائْتِنِي بِهِ فَإِنَّهُ فِي مَكَانِ كَذَا وَكَذَا فَيَجِيءُ بِهِ فَيُوقِفُهُ عَلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقُولُ لَهُ يَاعَبْدِي كَيْفَ وَجَدْتَ مَكَانَكَ وَمَقِيلَكَ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ شَرَّ مَكَانٍ وَشَرَّ مَقِيلٍ فَيَقُولُ رُدُّوا عَبْدِي فَيَقُولُ يَارَبِّ مَاكُنْتُ أَرْجُو إِذْأَخْرَجْتَنِي مِنْهَا أَنْ تَرُدَّنِي فِيهَا فَيَقُولُ دَعُوا عَبْدِي۔ (مسنداحمدبن حنبل، مسند أنس بن مالك رضي الله عنه ،حدیث نمبر:۱۳۴۳۵، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:ایک شخص دوزخ میں ایک ہزار سال تک یاحنان، یا منان پکارے گا، اللہ تعالیٰ حضرت جبریل سے فرمائیں گے جاؤ میرے اس بندے کومیرے پاس لےکر آؤحضرت جبریل روانہ ہوں گے اور دوزخیوں کوالٹے مونہہ گرے ہوئے روتے ہوئے پائیں گے اور واپس آکر اپنے پروردگار کو اس کی اطلاع کریں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم اس کو میرے پاس لے کرآؤ وہ فلاں جگہ میں موجود ہے؛ چنانچہ وہ اس کولے کراپنے پروردگار کے سامنے پیش کردیں گے، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے، اے میرے بندے! تم نے اپنا مکان اور آرام گاہ کوکیسا پایا؟ وہ عرض کریگا یارب بہت برا مکان اور بہت بری آرام گاہ ہے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے بندے کوواپس (وہیں دوزخ میں) لے جاؤ، وہ عرض کریگا یارب! جب آپ نے مجھے دوزخ سے نکالا تھا تومیں اس کی اُمید نہیں رکھتا تھا کہ آپ مجھے اس میں (دوبارہ) ڈالدیں گے تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے بندے کوچھوڑ دو (اور جنت میں داخل کردو)۔ دوزخ میں بلبلانے والے دوشخصوں کا جنت میں داخلہ: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ رَجُلَيْنِ مِمَّنْ دَخَلَ النَّارَ اشْتَدَّ صِيَاحُهُمَا فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ أَخْرِجُوهُمَا فَلَمَّا أُخْرِجَا قَالَ لَهُمَا لِأَيِّ شَيْءٍ اشْتَدَّ صِيَاحُكُمَا قَالَا فَعَلْنَا ذَلِكَ لِتَرْحَمَنَا قَالَ إِنَّ رَحْمَتِي لَكُمَا أَنْ تَنْطَلِقَا فَتُلْقِيَا أَنْفُسَكُمَا حَيْثُ كُنْتُمَا مِنْ النَّارِ فَيَنْطَلِقَانِ فَيُلْقِي أَحَدُهُمَا نَفْسَهُ فَيَجْعَلُهَا عَلَيْهِ بَرْدًا وَسَلَامًا وَيَقُومُ الْآخَرُ فَلَايُلْقِي نَفْسَهُ فَيَقُولُ لَهُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مَامَنَعَكَ أَنْ تُلْقِيَ نَفْسَكَ كَمَا أَلْقَى صَاحِبُكَ فَيَقُولُ يَارَبِّ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَاتُعِيدَنِي فِيهَا بَعْدَ مَاأَخْرَجْتَنِي فَيَقُولُ لَهُ الرَّبُّ لَكَ رَجَاؤُكَ فَيَدْخُلَانِ جَمِيعًا الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ۔ (ترمذی،كِتَاب صِفَةِ جَهَنَّمَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْهُ،حدیث نمبر:۲۵۲۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جولوگ دوزخ میں داخل کئے جائیں گے ان میں سے دوآدمیوں کی چیخ وپکار بہت بڑھی ہوئی ہوگی، اللہ تبارک وتعالیٰ حکم دیں گے کہ ان دونوں کوباہر نکالو، جب ان کوباہر نکالا جائے گا اور اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کس وجہ سے تمہاری چیخ وپکار بہت سخت ہوگئی تھی؟ وہ عرض کریں گے کہ ہم نے یہ اس لیے کیا تھا؛ تاکہ آپ ہم پررحمت فرمائیں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم دونوں پرمیری رحمت یہ ہے کہ تم واپس چلے جاؤ اور دوزخ میں جہاں پرموجود تھے وہیں پراپنے آپ کوگرادو؛ چنانچہ وہ دونوں چل پڑیں گے ان میں سے ایک توخود کودوزخ میں گرادے گا اور اس پردوزخ کوٹھنڈک اور سلامتی کردیا جائے گا؛ مگردوسرا شخص خود کونہیں گرائے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ پوچھیں گے کہ تمھیں کس بات نے منع کیا کہ تم نے اپنے آپ کواس طرح سے نہیں گرایا جس طرح سے تیرے ساتھی نے گرادیا ہے؟ وہ عرض کریگا یارب! میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ مجھے دوزخ سے نکالنے کے بعد دوبارہ اس میں داخل نہیں کریں گے تواللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے تیرے لیے تیری اُمید کے مطابق معاملہ کرتے ہیں؛ چنانچہ ان دونوں کواللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اخیرمیں دواور شخصوں کے جنت میں داخل ہونے کی حالت: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخِرَ رَجُلَيْنِ يَخْرُجَانِ مِنْ النَّارِ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ لِأَحَدِهِمَا يَاابْنَ آدَمَ مَاأَعْدَدْتَ لِهَذَا الْيَوْمِ؟ هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ هَلْ رَجَوْتَنِي فَيَقُولُ: لَایَارَبِّ إِلَّاأَنِّي كُنْتُ أَرْجُوكَ قَالَ فَيَرْفَعُ لَهُ شَجَرَةً فَيَقُولُ یَارَبِّ أَقِرَّنِي تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَآكُلَ مِنْ ثَمَرِهَا وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَايَسْأَلَهُ غَيْرَهَا فَيُقِرُّهُ تَحْتَهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنْ الْأُولَى وَأَغْدَقُ مَاءً فَيَقُولُ یَارَبِّ أَقِرَّنِي تَحْتَهَا لَاأَسْأَلُكَ غَيْرَهَا فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا وَآكُلَ مِنْ مَائِهَا فَيَقُولُ يَاابْنَ آدَمَ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَاتَسْأَلَنِي غَيْرَهَا فَيُقِرُّهُ تَحْتَهَا ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنْ الْأَوَّلَتَيْنِ وَأَغْدَقُ مَاءً فَيَقُولُ یَارَبِّ هَذِهِ أَقِرَّنِي تَحْتَهَا فَيُدْنِيَهُ مِنْهَا وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَايَسْأَلَهُ غَيْرَهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلَمْ يَتَمَالَكْ فَيَقُولُ یَارَبِّ أَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ فَيَقُولُ سَلْ وَتَمَنَّهْ فَيَسْأَلَهُ وَيَتَمَنَّى بِمِقْدَارِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا وَيُلَقِّنُهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلْ مَالَاعِلْمَ لَهُ بِهِ فَيَسْأَلُ وَيَتَمَنَّى فَإِذَا فَرَغَ قَالَ لَكَ مَاسَأَلْتَ قَالَ أَبُوسَعِيدٍ وَمِثْلُهُ مَعَهُ وَقَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ مَعَهُ۔ (مسنداحمدبن حنبل،مسند أبي سعيد الخدري رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۱۷۲۶، شاملہ، الناشر:مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:آخر میں جودوآدمی دوزخ سے نکلیں گے ان میں سے ایک سے اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے اے ابن آدم! تم نے اس دن (یعنی آخرت) کے لیے کیا تیاری کی تھی؟ وہ عرض کریگا یارب! آپ مجھے اس درخت کے نیچے بٹھادیں تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کرسکوں، اس کا پھل کھاسکوں اور اس کا پانی پی سکوں اور وہ معاہدہ کریگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس کے علاوہ کچھ نہیں مانگوں گا، تواللہ تعالی اس کواس درخت کے نیچے پہنچادیں گے، اس کے بعد ایک اور درخت اس کے سامنے پیش کیا جائے گا جوپہلے سے نہایت درجہ حسین ہوگا اور پانی کی بہت فراوانی ہوگی، یہ عرض کریگا یارب آپ مجھے اس کے نیچے بٹھادیں، میں اب کوئی اور سوال نہیں کرونگا، اس کے سایہ میں پڑا رہوں گا اور اس کا پانی پیتا رہوں گا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے ابن آدم! کیا تونے میرے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تھا؟ کہ تواس کے علاوہ مجھ سے کچھ اور طلب نہیں کریگا؛ پھراللہ تعالیٰ اس کواس درخت کے نیچے جگہ دیں گے؛ پھراس کے سامنے جنت کے دروازہ کے سامنے ایک درخت پیش کیا جائے گا جوپہلے والے دونوں درختوں سے زیادہ حسین وجمیل ہوگا اور بہت پانی والا ہوگا وہ عرض کریگا یارب! مجھے اس کے نیچے پہنچادے تواللہ تعالی اس کواس کے پاس پہنچادیں گے یہ اس وقت معاہدہ کریگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اور کچھ نہیں مانگے گا؛ پھرجب وہ جنت والوں کی آوازیں سنے گا تواس سے صبر نہیں ہوسکے گا پھرعرض کریگا؛ اے پروردگار! آپ مجھے جنت میں داخل کردیں اب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ مانگ اور تمنا کرتا جاتووہ (ان کوبھی) مانگتارہے گا اور تمنا کرتا رہے گا؛ حتی کہ دنیا کے تین دنوں کے برابر کا عرصہ گذرجائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کوان انعامات کی تلقین کرتے رہیں گے جن کا اس کوعلم نہیں ہوگا؛ چنانچہ وہ مانگتا رہے گا اور تمنا کرتا رہے گا جب وہ (مانگ کر) فارغ ہوگا تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھے وہ سب کچھ عطاء کیا جس کا تونے سوال کیا حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک گنا مزید بھی اس کوعطاء کیا جاے گا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اس کو (اس کے مانگنے کے حساب سے) دس گنا مزید عطاء کیا جائے گا۔ اخیر میں دوزخ سے نکلنے والے ایک دوزخی کی عجیب حکایت: حدیث:حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ آخِرَ رَجُلٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَتَقَلَّبُ على الصِّرَاطِ ظَهْرًا لِبَطْنٍ كَالْغُلامِ يَضْرِبُهُ أَبُوهُ وهو يَفِرُّ منه يَعْجِزُ عنه عَمَلُهُ أَنْ يَسْعَى فيقول يارَبِّ بَلِّغْ بِيَ الْجَنَّةَ وَنَجِّنِي مِنَ النَّارِ فيوحي اللَّهُ تَعَالَى إليه عَبْدِي إن أنانَجَّيْتُكَ مِنَ النَّارِ وَأَدْخَلْتُكَ الْجَنَّةَ أَتَعْتَرِفُ لي بِذُنُوبِكَ وَخَطَايَاكَ فيقول الْعَبْدُ نعم يارَبِّ وَعِزَّتِكَ وَجَلالِكَ لَئِنْ تُنْجِينِي مِنَ النَّارِ لأَعْتَرِفَنَّ لك بِذُنُوبِي وَخَطَايَايَ فَيَجُوزُ الْجِسْرَ وَيَقُولُ الْعَبْدُ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ نَفْسِهِ لَئِنِ اعْتَرَفَتُ له بِذُنُوبِي وَخَطَايَايَ لَيَرُدَّنِي إلى النَّارِ فَيُوحِي اللَّهُ إليه عَبْدِي اعْتَرِفْ لي بِذُنُوبِكَ وَخَطَايَاكَ أَغْفِرُهَا لك وَأُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ فيقول الْعَبْدُ لاوَعِزَّتِكَ ماأَذْنَبْتُ ذَنْبًا قَطُّ وَلاأَخْطَأْتُ خَطِيئَةً قَطُّ فَيُوحِي اللَّهُ إليه عَبْدِي إِنَّ لي عَلَيْكَ بَيِّنَةً فَيَلْتَفِتُ الْعَبْدُ يَمِينًا وَشِمَالا فَلايَرَى أَحَدًا فيقول يارَبِّ أَرِنِي بَيِّنَتَكَ فَيَسْتَنْطِقُ اللَّهُ جِلْدَهُ بِالْمُحَقَّرَاتِ فإذا رَأَى ذلك الْعَبْدُ يقول يارَبِّ عِنْدِي وَعِزَّتِكَ الْعَظَائِمُ الْمُضْمَرَاتُ فَيُوحِي اللَّهُ عز وجل إليه عَبْدِي أناأَعْرَفُ بها مِنْكَ اعْتَرِفْ لي بها أَغْفِرُهَا لك وَأُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ فَيَعْتَرِفُ الْعَبْدُ بِذُنُوبِهِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةُ ثُمَّ ضَحِكَ رسول اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وَسَلَّمْ هذا أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَة۔ (مسندابن ابی شیبہ، طبرانی:۷۶۶۹۔ البدورالسافرہ:۱۶۵۲۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۰۲) ترجمہ:سب سے آخر میں جوشخص جنت میں داخل ہوگا وہ، وہ ہوگا جواپنی پشت کوپل صراط پراس بچے کے پیٹ رگڑنے کی طرح الٹ پلٹ رہا ہوگا جس کواس کا باپ ماررہا ہوتا ہے اور وہ اس سے بھاگنا چاہتا ہے؛ مگر بھاگنے کا طریقہ نہیں جانتا، وہ عرض کریگا یارب! مجھے جنت میں پہنچادے اور دوزخ سے نجات دیدے، تواللہ تعالیٰ اس کی طرف وحی فرمائیں گے، اے میرے بندے! اگر میں تجھے دوزخ سے نجات دیدوں اور جنت میں داخل کردوں توکیا تومیرے سامنے اپنے گناہوں اور خطاؤں کا اعتراف کرلے گا وہ بندے عرض کریگا: جی ہاں! اے میرے رب، مجھے آپ کے غلبہ اور جلال کی قسم! اگرآپ نے مجھے دوزخ سے نجات دیدی تومیں بالکل اپنے گناہوں اور خطاؤں کا اعتراف کرونگا؛ پھرجب وہ پل صراط کوعبور کرلے گا تودل ہی دل میں کہے گا اگرمیں نے اپنے گناہوں اور خطاؤں کا اعتراف کرلیا تومجھے ضرور بالضرور دوزخ میں واپس ڈال دیا جائے گا تواللہ تعالیٰ اس کی طرف وحی کریں گے کہ اے میرے بندے! اب اپنے گناہوں اور خطاؤں کا اعتراف کرو میں تمہاری مغفرت بھی کرونگا اور تمھیں جنت میں بھی داخل کرونگا، بندہ کہے گا مجھے آپ کے غلبہ اور جلال کی قسم میں نے توکبھی گناہ کیا ہی نہیں اور نہ کبھی کوئی خطا کی ہے تواللہ تعالیٰ اس کی طرف القاء کریں گے کہ اے میرے بندے! میرے پاس تیرے خلاف گواہ موجود ہیں (تم کس طرح اپنے گناہوں سے انکار کرسکتے ہو؟)تووہ بندہ اپنے دائیں بائیں مڑکردیکھے گاتواس کوکوئی نظر نہیں آئیگا توکہے گا یارب! آپ کے گواہ کہاں ہیں؟ تواللہ تعالیٰ اس کے بدن کی جلد سے چھوٹے چھوٹے گناہ اگلوا دیں گے۔ جب وہ شخص یہ حال دیکھے گا توعرض کریگا یارب! آپ کی عزت وغلبہ کی قسم! میرے بڑے بڑے گناہ بھی ہیں تواللہ تعالیٰ اس کی طرف وحی فرمائیں گے کہ اے میرے بندے! میں ان گناہوں کوتجھ سے زیادہ جانتا ہوں، تم میرے سامنے ان سب کا اعتراف کرلےمیں ان کوبخش دونگا اور تجھے جنت میں بھی داخل کردونگا؛ چنانچہ وہ شخص اپنے گناہوں کا اعتراف کریگا اور اس کوجنت میں داخل کردیا جائے گا؛ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ شخص جنت میں سب سے کم مرتبہ اور کم درجہ کا ہوگا۔ مؤمنوں کی سفارش اور اللہ کی ایک مٹھی سے مؤمن دوزخیوں کی بخشش: حدیث:حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طویل روایت میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حَتَّى إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَامِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمْ الَّذِينَ فِي النَّارِ يَقُولُونَ رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ وَيَحُجُّونَ فَيُقَالُ لَهُمْ أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّارِ إِلَى سَاقَيْهِ وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا مَابَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ فَيَقُولُ لَھُمْ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا فَيَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِاخْرَاجِہِ أَحَدًا فَيَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا فَيَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَفَعَتْ الْمَلَائِكَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ وَلَمْ يَبْقَ إِلَّاأَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنْ النَّارِ فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا مَايَعْمَلُوْا یَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ وَقَدْ دُوَا فَحُمًا فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهَرِ الْحَیَاتِ فِي أَفْوَاهِ اجنَّةِ يُقَالُ لَهُ نَهَرُ الْحَيَاةِ فَيَخْرُجُونَ كَمَا تَخْرُجُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ۔ (بخاری ومسلم واللفظ لہ۔ التخویف من النار) ترجمہ:جب مسلمان جہنم سے پار ہوجائیں گے تومجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے ہرایک سےزیادہ حق کی ادائیگی میں مؤمنوں کے لیے روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کوقسم دلانے والا کوئی نہیں ہوگا یہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کی سفارش کرتے ہوئے عرض کریں گے؛ اے ہمارے رب! یہ (جہنم میں موجود مؤمن حضرات) ہمارے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے، نمازیں پڑھا کرتے تھے اور حج کیا کرتے تھے (اس لیے انہیں معاف فرما کرجہنم سے نکال لیں اور جنت میں داخل فرمادیں) توانہیں فرمایا جائے گا جنھیں تم جانتے ہو ان کونکال لاؤ ان کے جسم جہنم پرحرام ہیں؛ پس وہ لوگ بہت سی خلقت کونکال لائیں گے جنھیں جہنم نے آدھی پنڈیوں تک یاگھٹنوں تک غرق کیا ہوا تھا؛ پس یہ لوگ عرض کریں گے؛ اے ہمارے پروردگار! جن کا آپ نے ہمیں حکم فرمایا تھا ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا؛ پھراللہ تعالیٰ ان کوحکم فرمائیں گے تم واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی خیرپاتے ہو اسے (بھی جہنم سے) نکال لاؤ پس وہ بہت سی مخلوق کونکال لائیں گے اور کہیں گے، اے ہمارے پروردگار! ہم نے کسی کواس میں نہیں چھوڑا جس کا بھی آپ نے ہمیں حکم فرمایا (ہم اس کونکال لائے ہیں) پھراللہ تعالیٰ فرمائیں گے (اب بھی) واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں آدھے دینار کے وزن کے برابر بھلائی جانو اسے بھی نکال لو؛ پس وہ بہت سی مخلوق کوباہر نکال لائیں گے؛ پھرکہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم نے اس میں کسی کونہیں چھوڑا جس کے نکالنے کا آپ نے ہمیں حکم دیا؛ پھراللہ تعالیٰ فرمائیں گے (اب بھی) واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی بھلائی (ایمان) پاؤ اسے بھی نکال لاؤ تب بھی وہ بہت سی مخلوق کوباہر نکال لائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہم نے اس میں بھلائی کرنے والی (ایمان لانے والی) مخلوق بالکل نہیں رہنے دی (سب کوجہنم سے نکال لیا ہے)۔ حضرت ابوسعید خدریؓ اس حدیث کوبیان کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے اگرتم اس حدیث کے بارے میں میری تصدیق نہ کروتوچاہو تویہ آیت پڑھ لو: إِنَّ اللَّهَ لَايَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا۔ (النساء:۴۰) ترجمہ:بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی پرذرہ برابر بھی ظلم نہیں فرمائیں گے اگرایک نیکی (بھی) ہوگی تواسے بھی اجروثواب میں دوگنا، دردوگنا کردیں گے اور اپنی طرف سے اجرعظیم عطاء فرمائیں گے۔ پھراللہ تعالیٰ فرمائیں گے فرشتوں نے شفاعت کی انبیاء علیہم السلام نے بھی شفاعت کی اور مؤمنین نے بھی شفاعت کی اب سوائے ارحم الراحمین کے کوئی نہیں بچا تو (خود اللہ تعالیٰ) آگے سے (مؤمنین کی) ایک مٹھی بھریں گے اور اس کے ذریعہ ایسی قوم کوباہر نکالیں گے جنھوں نے ایمان کے علاوہ اور کوئی بھلائی نہ کی ہوگی اور وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے پھراللہ تعالیٰ ان کوجنت کے سامنے نہر میں ڈال دیں گے اس نہرکا نام نہرحیات ہے تووہ (اس سے اس حالت میں) نکلیں گے جیسے سیلاب خشک ہونے کے بعددانہ نکلتا ہے۔ مؤمن صرف ایمان کی بدولت دوزخ سے نکلیں گے: فائدہ: جن لوگوں نے کبھی بھلائی نہ کی ہوگی اس سے مراد یہ ہے کہ اپنے اعضاء سے کوئی عمل نہ کیا ہوگا اگرچہ ان کے ساتھ توحید کی حقیقت موجود ہوگی جیسا کہ اس آدمی کی حدیث میں بھی وارد ہے جس نے اپنے گھروالوں کوکہا تھا اسے موت آنے کے بعد جلاڈالیں، اس نے بھی کوئی نیک عمل کبھی نہیں کیا تھا سوائے توحید کے۔ (مسنداحمد، التخویف من النار لابن رجب حنبلی) اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کرونگا اے میرے پروردگار مجھے ان لوگوں کے متعلق (بھی) شفاعت کرنے کی اجازدت دیں لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ کہتے تھے تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے مجھے میری عزت، جلال، کبریائی اور عظمت کی قسم ہے میں ضرور ایسے آدمی کوجہنم سے نکالوں گا (جس نے لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ کہا تھا)۔ (التخویف من النبار، بحوالہ: بخاری ومسلم) یہ حدیث بھی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جن لوگوں نے کبھی بھی اپنے اعضاء سے نیک عمل نہ کیا ہوگا؛ لیکن صرف اہلِ کلمہ تھے ان کواللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بغیر کسی کی شفاعت کے جہنم سے نکالیں گے۔ فرشتے بھی دوزخیوں کونکالیں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل حدیث میں یہ بھی فرمایا: حَتَّى إِذَافَرَغَ اللَّهُ مِنْ الْقَضَاءِ بَيْنَ الْعِبَادِ وَأَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ بِرَحْمَتِهِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَمَرَ الْمَلَائِكَةَ أَنْ يُخْرِجُوا مِنْ النَّارِ مَنْ كَانَ لَايُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا مِمَّنْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَرْحَمَهُ مِمَّنْ يَشْهَدُ أَنْ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ فَيَعْرِفُونَهُمْ فِي النَّارِ بِأَثَرِ السُّجُودِ تَأْكُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلَّاأَثَرَ السُّجُودِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَيَخْرُجُونَ مِنْ النَّارِ قَدْ امْتُحِشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الْحَيَاةِ فَيَنْبُتُونَ تَحْتَهُ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ۔ (بخاری،كِتَاب التَّوْحِيدِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾ ،حدیث نمبر:۶۸۸۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:حتی کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان انصاف کرکے فارغ ہوجائیں گے اور ارادہ فرمائیں گے کہ اپنی رحمت سے بڑے گناہوں کے مرتکب لوگوں کوجہنم سے نکال لیں توفرشتوں کوحکم فرمائیں گے کہ وہ ہراس آدمی کوجہنم سے نکال لیں جواللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کرتا تھا (یہ فرشتے) انہیں سجدہ کے نشان سے پہچانیں گے (کیونکہ) جہنم ابن آدم کے تمام حصوں کوجلائے گی مگرسجدہ کے مقام کوباقی چھوڑ دے گی (اس لیے کہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پرحرام کردیا ہے کہ وہ سجدوں کے مقامات کوجلاسکے، جب وہ جہنم سے نکلیں گے توکوئلہ ہوچکے ہوں گے پھران پرآب حیات پلٹا جائے گا تووہ اس سے اس طرح تروتازہ ہوجائیں گے جس طرح دانہ سیلاب خشک ہونے کے بعد (زمین سے) اُگ پڑتا ہے۔ گناہگار دوزخی شفاعت سے بھی جنت میں جائیں گے: حدیث:حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ: أَمَّاأَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا فَإِنَّهُمْ لَايَمُوتُونَ فِيهَا وَلَايَحْيَوْنَ وَلَكِنْ نَاسٌ أَصَابَتْهُمْ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ أَوْقَالَ بِخَطَايَاهُمْ فَأَمَاتَهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَاكَانُوا فَحْمًا أُذِنَ بِالشَّفَاعَةِ فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَائِرَ ضَبَائِرَ فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ ثُمَّ قِيلَ يَاأَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ۔ (مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب إِثْبَاتِ الشَّفَاعَةِ وَإِخْرَاجِ الْمُوَحِّدِينَ مِنْ النَّارِ،حدیث نمبر:۲۷۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:دوزخی جوجہنم کے اہل ہوں گے وہ نہ تواس میں مریں گے اور نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھیں آگ ان کے گناہوں کے حساب سے جلائے گی؛ پھراللہ تعالیٰ ان کوموت دیدیں گے یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ بن جائیں گے توشفاعت کی اجازت دی جائے گی توان کوجماعتوں کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت کی نہروں پربکھیردیا جائے گا پھراہلِ جنت کوحکم دیا جائے گا کہ ان پر (آب حیات) پلٹو تووہ اس سے تروتازہ ہوجائیں گے جس طرح سیلاب میں بہنے والا دانہ (سیلاب خشک ہونے کے بعد زمین پرٹھہرتا ہے اور) اگ پڑتا ہے۔ فائدہ:اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہگار مسلمان جہنم میں حقیقی طور پرفوت ہوں گے اور ان کی روحیں ان کے جسموں سے جدا ہوں گی اس کی دلیل اگلی حدیث میں بھی موجود ہے۔ تنبیہ:اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب موت کوبھی موت آجائے گی تویہ کیسے مریں گے اس لیے کہ مؤمنوں پرموت آنے کی یہ حالت موت کے ذبح ہونے سے پہلے کی ہے موت کے ذبح ہونے کے بعد قطعاً کسی کوموت نہیں آئے گی۔ دوزخ سے نجات پاکر جنت میں جانے والے ادنی جنتی ہوں گے: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن أدنى أهل الجنة حظا، أونصيبا قوم يخرجهم الله من النار فيرتاح لهم الرب تبارك وتعالى إنهم كانوا لايشركون بالله شيئا فيبدون بالعراء فينبتون كما ينبت البقل حتى إذادخلت الأرواح في أجسادهم قالوا ربنا الذي أخرجتنا من النار ورجعت الأرواح إلى أجسادنا فاصرف وجوهنا عن النار قال فيصرف وجوههم عن النار۔ (مسندبزار، التخویف من النار) ترجمہ:اہلِ جنت میں کم نصیب والی وہ قوم ہوگی جن کواللہ تعالیٰ آگ سے نکالیں گے اور (جہنم سے) آزاد کردیں گے اور انہیں راحت پہنچائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جواللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہراتے تھے انہیں کھلے میدان میں پھینک دیا جائے گا تویہ تروتازہ ہوکر ابھرنے لگیں گے جیسے سبزہ اگتا ہے یہاں تک کہ جب روحیں اجسام میں داخل ہوں گی تووہ عرض کریں گے اے ہمارے رب! جس طرح آپ نے ہمیں آگ سے نکالا ہے اور روحوں کواجسام میں لوٹایا ہے اسی طرح ہمارے رُخ بھی آگ سے پھیردیجئے توان کے رُخ بھی آگ سے پھیردیئے جائیں گے۔ دوزخ میں مؤمنوں کی حالت: حدیث: محمدبن علی (امام باقر رحمۃ اللہ علیہ) اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أن أصحاب الكبائر من موحدي الأمم كلِّها الذين ماتوا على كبائرهم غير تائبين ولانادمين منهم من دخل النار في الباب الأول من جهنم لاتزرق عينهم ولاتسود وجوههم ولايقرنون بالشياطين ولايغلون بالسلاسل ولايجرعون الحميم ولايلبسون القطران في النار حرم الله أجسادهم علی الخلود من أجل التوحید وحرم صورہم علی النار من اجل السجود فمنهم من تأخذه النار إلى قدميه ومنهم من تأخذه النار الی حجزتہ ومنہم من تاخذہ النار الی عنقہ علی علی قدر ذنوبهم وأعمالهم فمنہم من یمکث فیہا شھراً ثم یخرج ومنہم من یمکث فیہا سنۃ ثم یخرج منہا واطوالھم فیھا مکثا بقدر الدنیا منذیوم خلقت الی ان تفنی، فاذااراد اللہ ان یخرجوا منہا قالت الیہود والنصاریٰ ومن فی النار من اھل الادیان والاوثان لمن فی النار من اھل التوحید آمنتم باللہ وکتبہ ورسولہ فنحن وانتم الیوم فی النار سواء، فیغضب اللہ لھم غصبا لم یغضبہ لشیٔ مما مضی فیخرجھم الی عین فی الجنۃ وھوقولہ تعالیٰ: رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْكَانُوا مُسْلِمِينَ(الحجر:۲)۔ (اخرجہ ابن ابی حاتم وغیرہ خرجہ الاسماعیلی مطولا وقال الدارقطنی فی کتاب المختلق ھوحدیث منکر والیمان مجھول ومسکین ضعیف ومحمد بن حمیر لاغرفہ الا فی ھذہ الحدیث انتھی، التخویف من النار:۲۶۳) ترجمہ:تمام امتوں کے موحدین بڑے گناہوں کے مرتکب جب اپنے گناہوں کی موجودگی میں بغیرشرمندگی اور بغیرتوبہ کئے فوت ہوجائیں گے (پھر) ان میں سے جولوگ دوزخ کے پہلے دروازہ سے آگ میں داخل ہوں گے، نہ توان کی بینائی چھینی جائے گی، نہ ان کے منہ کالے ہوں گے نہ شیطانوں کے ساتھ جکڑے جائیں گے، نہ زنجیروں سے باندھے جائیں گے، نہ جلتا ہوا پانی پلائے جائیں گے اور نہ جہنم میں تارکول کا لباس پہنائے جائیں گے، اللہ نے توحید کی وجہ سے ان کے اجسام کوجہنم میں ہمیشہ رہنا حرام کردیا ہے، سجدوں کی وجہ سے ان کی صورتوں کوآگ پرحرام کیا ہے، ان میں سے کسی کوبداعمالیوں کے حساب سے آگ نے قدموں تک پکڑا ہوگا، کسی کوکمر تک اور کسی کوگردن تک، ان میں سے کوئی ایک ماہ جہنم میں رہے گا پھرنکال لیا جائے گا ان میں سے جہنم میں سب سے زیادہ مدت رہنے والا دنیا کی عمر (کے برابر رہے گا یعنی کہ) جب سے دنیا بنی یہاں تک کہ وہ جب تباہ ہوگی، جب اللہ تعالیٰ ارادہ کریں گے کہ ان کوجہنم سے نکالیں تویہودی اور عیسائی اور باقی دوزخی جومختلف باطل ادیان یابت پرستوں سے تعلق رکھتے ہوں گے (بطورِ طعنہ) موحدین کوکہیں گے کہ تم (اللہ پرایمان لائے) اس کی کتابوں پربھی، اس کے رسولوں پربھی لیکن ہم اور تم آج دوزخ میں ایک حال میں ہیں؛ پس اللہ تعالیٰ ان پراتنا غصہ آلود ہوں گے کہ اور گذشتہ اوقات میں اتنا غصہ آلود کبھی نہ ہوئے ہوں گے؛ پس ان کوجنت کے ایک چشمہ کی طرف نکال لیں گے اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کافرمان ہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا خواہش کریں گے کہ کاش وہ (بھی) مسلمان ہوتے۔ اندھیری رات میں نماز کوجانے والوں کودوزخ میں بند نہیں کیا جائے گا: حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اہلِ توحید (گنہگار مسلمانوں) کوآگ میں بند نہیں کیا جائے گا (یہ صورت دیکھ کر) جہنم کی پولیس ایک دوسرے سے کہے گی ان (کفار) کی حالت تویہ ہے کہ انہیں آگ میں بند کیا ہوا ہے او رانہیں بند نہیں کیا گیا؟ توانہیں ایک منادی ندا کرے گا (اس لیے) کہ یہ لوگ مساجد میں اندھیری رات میں (بھی) جایا کرتے تھے۔ (التخویف من النار:۲۶۴) چونکہ یہ نماز کی خاطر دنیا کی اندھیری راتوں کی مشقت برداشت کرچکے ہیں اس لیے دوزخ کی تاریک آگ میں ان کوبند نہیں کیا جائے گا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کوایک ہزار سال کے بعد بھی نکالا جائے گا پھرحضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے شدت خوف سے فرمایا کاش کہ وہ آدمی میں ہوتا۔ (التخویف من النار:۲۶۴) فائدہ:مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب جہنم کے خوفناک مناظر ملاحظہ فرمائیں، امداداللہ۔