انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت سعدؓ بن ابی وقاص ملک عراق میں حضرت مثنیٰ بن حارثہؓ نے فوت ہوتے وقت اپنی جگہ حضرت بشیر بن حصامہ کو اپنی فوج کا سردار تجویز فرمادیا تھا،اس وقت آٹھ ہزار فوج مثنیٰ کے پاس موجود تھی،فاروق اعظمؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے لئے راستہ اور راستے کی منزلیں بھی خود مقرر فرمادی تھیں اورروزانہ ہدایات بھیجتے رہتے تھے اور لشکر اسلام کی خبریں منگاتے رہتے تھے جب حضرت سعد بن وقاصؓ مقام ثعلبہ سے مقام سیراف کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں قبیلۂ بنی اسد کے تین ہزار جوان جو فاروق اعظم کے حکم نامہ کے موافق سررہگذر منتظر تھے،سعد ؓ کی فوج میں شامل ہوگئے،مقام سیراف میں پہنچے،تویہاں اشعث بن قیس حکم فاروقی کے موافق اپنے قبیلے کے دو ہزار غازیوں کو لے کر حاضر اورلشکر سعدؓ میں شامل ہوئے،اُسی جگہ حضرت مثنیٰ کے بھائی معنی بن حارثہ شیبانی سعدؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ تمام ضروری ہدایتیں جو حضرت مثنیٰ نے فوت ہوتے وقت فوج اور دشمن کی جنگ کے متعلق بیان فرمائی تھیں بیان کیں اسی جگہ وہ آٹھ ہزار کا لشکر بھی جو حضرت مثنیٰ کے پاس تھا،لشکرِ سعدؓ میں آکر شامل ہوگیا،حضرت سعدؓ بن وقاص نے اس جگہ لشکر اسلام کا جائزہ لیا تو بیس اور تیس ہزار کے درمیان تعداد تھی جس میں تین سو صحابی ایسے تھے، جو بیعت رضوان میں موجود تھے اورسترصحابی ایسے تھے جو غزوہ بدر میں میں شریک تھے،حضرت سعد بن وقاص ابھی مقام سیراف ہی میں مقیم تھے فاروق اعظمؓ کا فرمان اُن کے نام پہنچا کہ قادسیہ کی طرف بڑھو اورقادسیہ میں پہنچ کر اپنے مورچے ایسے مقام پر قائم کرو کہ تمہارے آگے فارس کی زمین ہو اور تمہارے پیچھے عرب کے پہاڑ ہوں،اگر اللہ تعالیٰ تم کو فتح نصیب کرے تو جس قدر چاہو بڑھتے چلے جاؤ،لیکن خدانخواستہ معاملہ برعکس ہو تو پہاڑ پر آکر ٹھہرو اورپھر خوب چوکس ہوکر حملہ کرو، حضرت سعدؓ نے اس حکم کے موافق مقام سیراف سے کوچ کیا اورزبیرؓ بن عبداللہ بن قتادہ کو مقدمۃ الجیش کا، عبداللہ بن المعتصم کو میمنہ کا ،شرجیل بن السمط کندی کو میسرہ کا،عاصم بن عمرو تمیمی کو ساقہ کا سردار مقرر کیا،لشکر سعدؓ میں سلمانؓ فارسی سامان رسد کے افسر اعلیٰ تھے،عبدالرحمن بن ربیعہ باہلی قاضی وخزانچی تھے،ہلال ہجری مترجم اورزیاد بن ابی سفیان کاتب یاسیکریٹری تھے،حضرت سعدؓ اپنا لشکر لئے ہوئے مقام سیراف سے قادسیہ کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں مقام عذیب آیا جہاں ایرانیوں کا میگزین تھا، اس پر قبضہ کرتے ہوئے قادسیہ پہنچے،قادسیہ پہنچ کر لشکرِ فارس کے انتظار میں قریباً دو ماہ انتظار کرنا پڑا اس زمانہ میں لشکر اسلام کو جب سامان رسد کی ضرورت ہوتی تو ایرانی علاقوں پر مختلف دستے چھاپے مارتے اورضروری سامان حاصل کرتے۔