انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** (۲)علم اسناد کی دینی حیثیت حدیث کا متن Text حدیث کی سند Chain of Transitters پر موقوف ہے، سند صحیح متصل سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اس کی تمام ذمہ داریاں لازم آجاتی ہیں، حدیث اگر حجت ہے اوراس پر عمل واجب ہے تو اس کی سند معلوم کرنا اوراسکے راویوں کی جانچ پڑتال کرنا سب علم دین قرار پائے گا،یادرکھئے واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے، قرآن کریم میں ہے: "إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا"۔ (الحجرات:۶) ترجمہ: اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی رو سے راوی کی بات کی تحقیق کرنا ایک عظیم دینی ذمہ داری ہے جو سامع پر عائد ہوتی ہے،سو اسناد کوپہچاننا اورراویوں کو جاننا خود دین ہوگا، امام ابن سیرینؒ (۱۱۰ھ) فرماتے ہیں: "إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ"۔ (مقدمہ مسلم،باب حدثنا حسن بن الربیع حدثنا حماد:۱/۳۳) ترجمہ: بے شک یہ علم دین ہے سو دیکھ لیا کرو کہ کن لوگوں سے تم اپنا دین اخذ کررہے ہو، امام نووی نے اس پر یہ باب باندھا ہے۔ "بَاب بَيَانِ أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنْ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَكُونُ إِلَّا عَنْ الثِّقَاتِ وَأَنَّ جَرْحَ الرُّوَاةِ بِمَا هُوَ فِيهِمْ جَائِزٌ بَلْ وَاجِبٌ"۔ (مسلم،باب بیان ان الاسناد من الدین:۱/۳۲) ترجمہ: سند لانادین میں سے ہے، روایت ثقہ راویوں سے ہو، راویوں پر اس پہلو سے جرح کرنا جوان میں ہو جائز ہے ؛بلکہ یہ واجب ہے۔ علم اسناد کی یہاں تک اہمیت ہوگئی کہ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ (۱۵۶ھ) نے اس کا سیکھنا دین قرار دیا،آپ فرماتے ہیں: "الْإِسْنَادُ مِنْ الدِّينِ وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ"۔ (مقدمہ مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸) ترجمہ: علم اسناد بھی دین کا ہی ایک حصہ ہے اوراگرسند ضروری نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہے کہہ سکتا تھا۔ قبول روایت کا معیار آپ کے ہاں اتنا وقیع تھا ؛کہ جو شخص سلف (پہلے بزرگوں ) کو برا بھلا کہے،اس کی روایت نہ لینے کا حکم فرماتے تھے، ایک جگہ فرماتے ہیں: "دَعُوا حَدِيثَ عَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَسُبُّ السَّلَفَ"۔ (مقدمہ مسلم،باب وحدثنی محمد بن عبداللہ بن:۱/۳۸) ترجمہ: عمرو بن ثابت کی روایت چھوڑدو وہ تو سلف صالحین کو برا کہتا تھا۔ حافظ شمس الدین سخاوی(۹۰۲ھ) ایک جگہ لکھتے ہیں: راویوں کی تاریخ اوران کی وفات کے سنین کا جاننا دین کا ایک عظیم الوقعت فن ہے،مسلمان قدیم سے اس سے کام لیتے آئے ہیں،اس سے استغنا نہیں برتا جاسکتا نہ اس سے زیادہ کوئی اور موضوع اہم ہوسکتا ہے، خصوصا اس کی قدر اعظم سے اور وہ راویوں کے حالات کو کھولنا اوران کے حالات کی ان کے ماضی، حال اور استقبال کے ساتھ تفتیش کرنا ہے، اعتقادی ابواب اور فقہی مسائل اس کلام سے ماخوذہیں جو ضلالت سے بچ کر ہدایت دے اور گمراہی اوراندھا پن سے ہٹا کر راہ دکھائے۔ (فتح المغیث، باب تواریخ الرواۃ والوفیات:۳۱۰/۳)