انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کتب اسماء الرجال پہلے دور کی اسماء الرجال کی کتابیں راویوں کے نہایت مختصر حالات کو لیے ہوئے تھیں، ابن عدی(۳۶۵ھ) اور ابو نعیم اصفہانی (۴۳۰ھ)نے سب سے پہلے معلومات زیادہ حاصل کرنے کی طرف توجہ کی،خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ابن عبدالبر(۴۶۲ھ) اورابن عساکرد مشقی (۵۷۱ھ) نے ضخیم جلدوں میں بغداد اور دمشق کی تاریخیں لکھیں تو ان میں تقریبا سب اعیان ورجال کے تذکرے آگئے ہیں۔ جہاں تک فنی حیثیت کا تعلق ہے، سب سے پہلے حافظ عبدالغنی المقدسی (۶۰۰ھ) نے اس پر قلم اٹھایا اورالکمال فی اسماء الرجال لکھی،یہ اس باب میں سنگ میل کا حکم رکھتی ہے، بعد کے آنے والے مصنفین رجال نے اسی پر آگے محنتیں کیں، اضافے کیے،تلخیصات کیں، ترتیبیں بدلیں،لیکن حق یہ ہے کہ اس کتاب کی مرکزی حیثیت سے کوئی نیا لکھنے والا مستغنی نہیں رہ سکا، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اب ہم علم رجال پر لکھی گئی چند اہم کتابوں کا یہاں ذکر کرتے ہیں، زیادہ تر یہ وہی کتابیں ہیں جن سے ہمارے طلبہ کسی نہ کسی درجے میں پہلے سے مانوس ہیں۔ (۱)رجال یحییٰ بن سعید الفطان (۱۹۸ھ) (۲)طبقات ابن سعد ابن سعد (۲۳۰ھ) (۳)معرفۃ الرجال امام احمد بن حنبل (۲۴۱ھ) (۴)تاریخ امام بخاری (۲۵۶ھ) نقد رجال کے یہ ابتدائی نقوش تھے،آگے ان میں کچھ وسعت پیدا ہوئی،اس دوسرے دور میں پانچ کتابیں زیادہ معروف ہوئیں۔ ۱۔ کامل ابن عدی (۳۶۵ھ) ۲۔تاریخ نیشاپور ابونعیم اصفہانی (۴۳۰ھ) ۳۔تاریخ بغداد خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) ۱۴ جلدوں میں ہے۔ ۴۔الاستیعاب ابن عبدالبرمالکی (۴۶۴ھ) ۵۔تاریخ دمشق ابن عساکر (۵۷۱ھ) ۸جلدوں میں ہے۔ ان کتابوں کی زیادہ حیثیت تاریخ کی ہے،گوان میں بہت سے رجال حدیث کا ذکر مل جاتا ہے، اس کے بعد علم اسماء الرجال ایک مستقل فن کی حیثیت میں مرتب ہوا، اس باب میں حافظ عبدالغنی المقدسی (۶۰۰ھ) سرفہرست ہیں۔ ۱۔حافظ عبدالغنی المقدسی دمشق کے رہنے والے تھے اورحنبلی المسلک تھے،آپ نے الکمال فی اسماء الرجال لکھی اورانہی کے نقوش وخطوط پر آگے کام ہوتا رہا۔انہوں نے ابتدائی اینٹیں چنیں اور آگے آنے والوں نے ان پر دیواریں کھڑی کیں۔ ۲۔آپ کے بعدحافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمن المزی (۷۴۲ھ)آئے اورانہوں نے الکمال کو پھر سے بارہ جلدوں میں مرتب کیا اور اس کا نام تہذیب الکمال رکھا، آپ بھی دمشق کے رہنے والے تھے،لیکن مسلکا شافعی تھے،آپ نے اس میں اوراہل فن سے بھی معلومات جمع فرمائیں۔ ۳۔پھر حافظ المزی کے شاگرد جناب حافظ شمس الدین ذہبی(۸۴۸ھ)اٹھے اورانہوں نے "تہذیب الکمال" کو مختصر کرکے "تذہیب التہذیب" لکھی،اس کے علاوہ "میزان الاعتدال" اور"سیر اعلام النبلاء" اور"تذکرۃ الحفاظ" جیسی بلند پا یہ کتابیں بھی لکھیں، جو اپنے فن پر وقت کی لاجواب کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ ۴۔پھر شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی نے تذہیب التہذیب کو اپنے انداز میں مختصر کیااور تہذیب التہذیب (تہذیب التہذیب پر نظر ثانی کی بہت ضرورت ہے،پہلی دفعہ حیدرآباد سے شائع ہوئی تھی،افسوس کہ اس پر کسی نے تحقیقی کام نہیں کیا بہت سے اغلاط اس میں پائے جاتے ہیں) لکھی جو بارہ جلدوں میں ہے پھر خود ہی اس کا خلاصہ تقریب التہذیب کے نام سے لکھا؛ اس کے علاوہ آپ نے لسان المیزان بھی لکھی جو چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے۔ ۵۔پھر شیخ الاسلام حضرت علامہ بدرالدین عینی نے(۸۵۵ھ)معانی الاخبارمن رجال شرح معانی الآثار لکھی،(محدث جلیل مولانا محمد ایوب مظاہری نے تراجم الاحبار من رجال شرح معانی الآثار چارضخیم جلدوں میں لکھ کر علمی دنیا پر بڑا احسان کیا ہے علم اسماء الرجال کی یہ وہ خدمت ہے جس کی نظیرپاک وہند میں اس عہد میں نہیں ملتی،مکتبہ اشاعت العلوم سہارن پورنے اسے شائع کیا ہے)اورطحاوی کے رجال جمع کئے، تلخیص کشف الاستار کے نام سے بھی علامہ ہاشم سندھی نے لکھی ہے جو دیوبند سے شائع ہوچکی ہے۔ (۶)ان کےبعد حافظ صفی الدین ؒخزرجی(۹۲۳ھ) نے خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال لکھی،یہ کتاب مطبع کبری بولاق سے (۱۳۰۱ھ) میں شائع ہوئی۔ ہمارے دور میں علمائے اہلسنت کے ہاں تحقیق رجال میں زیادہ تر یہی کتابیں رائج ہیں، ان کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی ہیں جو گو خاص اسماء الرجال کے فن پر نہیں لکھی گئیں،لیکن ان میں رجال حدیث کی بڑی تحقیقات مل جاتی ہیں،جیسے نصب الرایہ حافظ جمال الدین الزیلعی (۷۴۳ھ)۔