انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت زبر قانؓ بن بدر نام ونسب حسین نام، ابو عیاش کنیت، زبرقان لقب، نسب نامہ یہ ہے، زبرقان بن بدر ابن امرؤ القیس بن خلف بن بہدلہ بن عوف بن کعب بن زید مناۃ بن تمیم تمیمی سعدی، زبرقان تمیمی کے شاہی خاندان کے رکن اوراپنے قبیلہ کے سردار تھے،اسلام کے بعد بھی ان کا یہ اعزاز اور مرتبہ برقرار رہا۔ اسلام ۹ھ میں وفد تمیم کے ساتھ مدینہ آئے،وفد کے تمام ارکان شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے،اس لیے مدینہ میں بھی جاہلی ٹھاٹھ کے ساتھ آئے،تعلی اورفخاری کے لیے آتش بیان خطیب اورسحر بیان شعرا ساتھ تھے،آستان نبوی پر پہنچ کر رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگی، محمد جئناک نفاخرک فاذن لشاعر نا محمد، ہم تم سے مفاخرۃ کے لیے آئے ہیں ہمارے شاعروں کو اجازت دو،آپ سے اجازت لیکر مجلس مفاخرہ منعقد کی اوربنی تمیم کے شعراء اور خطباء نے ان کی عالی نسبی، بادشاہی اوراثر واقتدار کے ترانے گائے، زبر قان بن بدر نے بھی ایک پر زور قصیدہ جو تمام ترنخوت، تعلی فخاری اورخود ستائی پر مشتمل تھا سنایا، طوطی اسلام حضرت حسانؓ ابن ثابؓت نے اس کا جواب دیا، ان کی فصاحت و بلاغت اور شاعرانہ عظمت کو دیکھ کر ارکان وفد دنگ رہ گئے اوراقرعؓ بن حابس کی تحریک سے سب نے اسلام قبول کرلیا، اقرعؓ بن حابس کے حالات میں اس مجلس مفاخرہ کے تفصیلی حالات لکھے جاچکے ہیں۔ (سیرۃ ابن ہشام نے نہایت تفصیل سے اس مفاخرہ کو لکھا ہے ہم نے صرف بقدر ضرورت شامل کیا ہے:۲/۲۵۵تا۳۶) امارت بنی سعد اورفتنہ ردہ قبول اسلام کے بعد آنحضرتﷺ نے زبرقان کو بنی سعد کا امیر مقرر فرمایا، آپ کی وفات کے وقت وہ اس عہد پر تھے، (حضرت ابوبکرؓ کی مسند نشینی کے بعد جب ارتداد کا فتنہ اٹھا، اوربنی تمیم کی بہت سی شاخیں مرتد ہوگئیں اور زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا، اس وقت زبرقان نے اپنی کوششوں سے اپنے قبیلہ بنی سعد کو اس وبا سے بچائے رکھا اورجب دستور زکوٰۃ وصول کرکے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیجی (اسد الغابہ:۱/۱۹۴) حضرت ابوبکرؓ نے اس خدمت کے صلہ میں انہیں ان کے عہدہ پر برقرار رکھا۔ (ایضاً) عہد فاروقی حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی زبر قان اپنی مفوضہ خدمت انجام دیتے رہےایک مرتبہ زکوٰۃ کی رقم لیے ہوئے مدینہ آرہے تھے ،راستہ میں مشہور شاعر حطیہ سے ملاقات ہوئی ،یہ وہ زمانہ تھا کہ عراق فتح ہوچکا تھا، اورعرب بھی دنیا وی تکلفات سے آشنا ہوچلے تھے اور یہاں کے جوش باش عیش پرست عرب کے خشک اوربنجر علاقہ سے تبدیل آب وہوا اور عیش پرستی کے لیے عراق پہنچتے تھے ،حطیہ بھی اس مقصد سے عراق جارہا تھا، زبرقان عہد رسالت کی سادگی کی جگہ اس قسم کے تعیش کو نا پسند کرتے تھے؛چنانچہ انہوں نے حطیہ کو اس راہ سے روک کر اپنے گھر واپس کردیا اورکہا کہ وہ ان کی واپسی تک ان کا مہمان رہے ،حطیہ اس وقت تو لوٹ گیا،لیکن زبر قان نے اس کے شاعرانہ جذبات کو ٹھیس لگائی تھی، اس لیے زبرقان کی ایک ہجو کہہ ڈالی، انہوں نے حضرت عمرؓ سے اس کی شکایت کی،آپ نے استادِ فن حضرت حسان ؓبن ثابت سے رائے طلب کی کہ حطیہ کے اشعار ہجو میں آتے ہیں یا نہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہجو ہے، اثباتِ جرم کے بعد حضرت عمرؓ نے حطیہ کو قید کردیا، لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف اورزبیر بن عوامؓ کی سفارش پر آیندہ کے لیے توبہ کراکے رہا کردیا۔ (استیعاب :۱/۲۱۱) اظہار حق میں جرأت زبرقان اظہارحق میں بڑے جری اوربے باک تھے ،حق پر ٹوکنے میں کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے، زیاد کا جو روستم مشہور ہے، اس کے پاس جاکر کہا کہ خلقِ خدا تمہارے جو روظلم پر خندہ زن ہے۔ (اصابہ:۲/۴) وفات ان کے وفات کا صحیح زمانہ متعین نہیں کیا جاسکتا ،امیر معاویہ کے عہد تک ان کی زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ حلیہ باپ کا نام بدر تھا، زبرقان اسی بدر کے لڑکے تھے اور اپنے غیر معمولی حسن وجمال کی وجہ سے "ماہ نجد" کہے جاتے تھے،مکہ جاتے تھے تو فتنہ کے خیال سے چہرہ پر ڈھاٹا باندھ لیتے تھےتاکہ صورت پر کسی کی نظر نہ پڑنے پائے۔