انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عہدِ بنواُمیہ میں صوبوں کی تقسیم اس جگہ یہ بات سمجھادینی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عہدِ بنواُمیہ میں کل ممالکِ اسلامیہ چند صوبوں میں تقسیم تھے، ہرصوبہ پرایک امیریاوائسرائے یانائب السلطنت مقرر ہوتا تھا، اس کواپنے صوبہ میں کامل شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے تھے اور وہ خود ہی اپنی طرف سے اپنے صوبہ کی ولایتوں میں حاکم مقرر کرتا تھا، بڑے بڑے صوبے حجاز، عراق، جزیرہ، آرمینیا، شام، مصر، افریقہ، اندلس، خراسان وغیرہ تھے، حجاز کے صوبہ میں مکہ، مدینہ، طائف، یمن کی ولایتیں شامل تھیں کبھی ایسا ہوتا تھا کہ یمن کوحجاز کی ماتحتی سے نکال کرایک الگ صوبہ قرار دیا جاتا تھا اور وہاں کا حاکم دارالخلافہ سے مقرر ہوتا تھا، شام کے صوبہ میں اردن، حمص، دمشق، قنسرین کی ولایتیں شامل تھیں، مصر کے صوبہ میں کبھی افریقہ بھی شامل ہوتا تھا اور کبھی افریقہ کومصر سے الگ صوبہ قرار دے کرقیسروان کا گورنر دربارِ خلافت سے مقرر کیا جاتا تھا؛ اسی طرح اندلس کبھی الگ صوبہ قرار دیا جاتا تھا اور وہاں کا حاکم خلیفہ خود مقرر کرتا تھا اور کبھی اندلس کوقیروان کے امیر کا ماتحت کرکے صوبہ افریقہ میں شامل کردیا جاتا تھا، اس حالت میں قیروان کا امیرخود اپنے اختیار سے اندلس میں کسی حاکم کومقرر کرتا تھا؛ یہی کیفیت عراق وخراسان کی تھی یعنی کبھی خراسان ایک الگ صوبہ ہوتا تھا اور وہاں کا گورنرامیردربارِ خلافت سے مقرر ہوتا تھا اور کبھی خراسان کوصوبہ عراق میں شامل کردیا جاتا تھا، اس حالت میں خراسان کا حاکم گورنر عراق کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا، صوبوں کے امیروں اور ولایتوں کے والیوں کواپنے متعلقہ ملکوں میں سیاہ وسفید کے کامل اختیارات حاصل ہوتے تھے؛ لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ محکمہ مال کی افسری یعنی وصولی خراج وجزیہ کے لیے دربارِ خلافت سے الگ کوئی اہل کار مقرر ہوجاتا تھا، دربارِ خلافت سے مقرر شدہ افسر مال اپنے آپ کوصوبہ یاولایت کے حاکم کاماتحت نہیں سمھا جاتا تھا؛ لیکن فوج کا سپہ سالار اور ملک کے امن وامان کا ذمہ دار ہمیشہ اس صوبہ کا امیر یااس ولایت کا والی ہی ہوتا تھا، افسر مال کی طرح کبھی کبھی صوبہ کا امیرشریعت یاقاضی اعظم بھی دربارِ خلافت سے مقرر ہوکر جاتا تھا؛ لیکن نمازوں کا امام ہمیشہ امیریاگورنر ہی ہوتا تھا، یعنی نمازوں کی امامت اور سپہ سالاری لازم وملزوم تھی، بعدمیں نمازوں کی امامت اور صوبہ کی امارت بھی جدا جدا ہونے لگی؛ تاہم جمعہ کا خطبہ حاکم صوبہ اور سپہ سالارِاعظم ہی سے متعلق رہا، آج یہ حقیقت جاہل مسلمانوں اور مسجد کے تنخواہ دار اماموں کی سمجھ میں کہاں آسکتی ہے۔ نصر بن سیار کے پاس جب معزولی کے احکام پہنچے تواس نے اوّل ان کی تکمیل کاارادہ کیا؛ لیکن پھرمتوہم ہوکر خراسان کا قبضہ نہ چھوڑا اور خود مختاری کا اعلان کردیا، واقعات کے تسلسل کوقائم رکھنے کے لی یہ ایک واقعہ اسی جگہ بیان کردینا چاہیے کہ نصربن سیار کے پاس ابھی معزولی کے احکام نہیں پہنچے تھے اور وہ ولید بن یزید کی خلافت کوتسلیم کرچکا تھا کہ اس کے پاس حکم پہنچا کہ یحییٰ بن زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کوجواپنے باپ کے مقتول ہونے کے بعد خراسان پہنچ کربلخ میں مقیم ہیں گرفتار کرکے بھیج دو، نصر بن سیار نے یحییٰ بن زید کوبلاکر قید کردیا اور ولید بن یزید کولکھ بھیجا کہ میں نے یحییٰ کوقید کردیا ہے، ولید نے لکھا کہ یحییٰ کوہمارے پاس بھیج دو، نصر بن سیار نے یحییٰ بن زید کوبلاکر قید کردیا اور ولید بن یزید کولکھ بھیجا کہ میں نے یحییٰ کوآزاد کرکے حکم دیا کہ تم دمشق میں خلیفہ کے پاس چلے جاؤ، یحییٰ وہاس سے روانہ ہوکر راستہ ہی سے پھرخراسان کی طرف لوٹ پڑے ان کے ساتھ معتقدین کی ایک جماعت فراہم ہوگئی، نصر نے مقابلہ کے لیے فوج بھیجی اور یحییٰ پیشانی پرتیر کازخم کھا کرفوت ہوگئے اور ان کے تمام ہمراہی قتل ہوئے یہ واقعہ سنہ۱۲۵ھ مقام جورجان میں وقوع پذیر ہوا، یحییٰ کا سرولید کے پاس بھیج دیا گیا اور لاش جرجان میں صلیب پرلٹکادی گئی، جوسات سال تک برابر لٹکی رہی اور ابومسلم خراسانی نے اس کواُتار کردفن کرایا۔ ولید بن یزید کے مظالم نے لوگوں کورنجیدہ وبرافروختہ کرہی رکھا تھا کہ اس کے بنی اعمام نے جن پرولید نے بڑے بڑے ظلم کیے تھے اس کے خلاف کوششیں شروع کردیں، ولید بن یزی کا چچازاد بھائی یزید بن ولید بن عبدالملک خاص طور پرولید کے خلاف مصروف کار ہوا، یزید بن ولید خاندانِ سلطنت میں زیادہ نیک اور باخدا سمجھا جاتا تھا؛ لہٰذا اس نے ولید بن یزید کی خلاف شرع باتوں کی شکایات لوگوں سے بیان کرنی شروع کیں اور بہت جلد لوگ اس کے ہم خیال وہم نوا ہوگئے، اس کام میں یزید بن ولید کونہ صرف سردارانِ لشکر اور امرائے سلطنت بلکہ خاندانِ سلطنت کی بھی حمایت حاصل ہوگئی، نتیجہ یہ ہوا کہ سب نے مخفی طور پریزد بن ولید کے ہاتھ پربیعت کی اور لشکر شام کا بڑا حصہ یزید بن ولید کے ساتھ شامل ہوگیا، یزید بن ولید نے دمشق کی سکونت ترک کرکے دمشق سے تھوڑے فاصلہ پرایک گاؤں میں قیام کیا اور وہیں سے اپنے کارندے بلاداسلامیہ کی طرف روانہ کیے کہ وہ ولید بن یزید کی بداعمالیوں کے حالات لوگوں کوسنائیں اور اس طرح تمام عالم اسلامی کی رائے عامہ کوولید کے خلاف اور یزید کے موافق بنائیں یہ پہلا موقع تھا کہ بنواُمیہ کے درمیان بلکہ خاندانِ سلطنت کے درمیان ایسی پھوٹ پڑی اور مخالفت نے یہاں تک ترقی کی کہ خفیہ سازشوں اور اشاعتی کاروائیوں سے کام لیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد ولید کے خلاف اور یزید کے موافق حالات پیدا ہوگئے، یزید بن ولید کا بھائی عباس بن ولید بھی اگرچہ ولید بن یزید سے سخت ناراض اور اذیت رسیدہ تھا؛ مگروہ اپنے بھائی یزید کواس کام سے روکنا اور منع کرنا چاہتا تھا، عباس کے اختلاف سے تنگ آکر ہی یزید نے دمشق کوچھوڑا اور ایک الگ جائے قیام کی تلاش کی تھی یزید نے ہرطرح اپنا اطمینان کرلینے کے بعد ۲۷/جمادی الثانی سنہ۱۲۶ھ بروز جمعہ خروج کے لیے مقرر کیا؛ چنانچہ وہ حیران وپریشان ہوکر رہ گیا اور کچھ نہ کرسکا، دارالامارۃ کا دروازہ بند کرکے بیٹھ گیا، اب اہلِ دمشق اور اردگرد کے لوگوں نے آآکر یزید بن ولید کے ہاتھ پرعلانیہ بیعتِ خلافت کرنی شروع کی، ولید بن یزید نے دمشق سے نکل کرحمص کی طرف جانا چاہا، آخرمقام قصر نعمانی میں یزید نے ولید کا محاصرہ کرلیا، ولید کے ہمراہیوں نے خوب جی توڑ کرمقابلہ کیا، عباس بن ولید یعنی یزید کا حقیقی بھائی اپنی جماعت کولے کرولید کی حمایت کی اور یزید کی مخالفت ومقابلے کے لیے دمشق سے چلا لیکن راستے میں اس کومنصور بن جمہور نے گرفتار کرکے یزید بن ولید کے سامنے حاضر کردیا، ولید بن یزید نے جب دیکھا کہ اب کوئی صورت نجات کی نہیں ہے تویہ کہہ کرکہ آج میرے لیے بھی ویسا ہی دن ہے جیسا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پرآیا تھا، قرآن شریف لے کرپڑھنے بیٹھ گیا، یزید کے آدمیوں نے قصر کی دیواروں پرچڑھ کراور قصر کے اندر داخل ہوکر ولید بن یزید کا سرکاٹ لیا اور منصور بن جمہور نے لاکر یزید بن ولید کے سامنے پیش کیا، یزید نے حکم دیا کہ اس کوتشہیر کراکرولید کے بھائی سلیمان بن یزید کودے دیا جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ۲۸/جمادی الثانی سنہ۱۲۶ھ کوولید ایک برس تین ماہ خلیفہ رہنے کے بعد مقتول ہوئے اور اسی روز یزید بن ولید بن عبدالملک تخت نشین ہوا، بنی اُمیہ کے درمیان یہ آپس کی لڑائی ایسی ہوئی کہ اس کے بعد خاندان بنواُمیہ مسلسل مبتلائے مصائب رہ کر برباد ہی ہوگیا اور پھردم بدم ان پرتباہی نازل ہوتی رہی۔