انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** چھ باتوں کی پیشن گوئی حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے کہ میں غزوہ تبوک میں حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اس وقت نبی کریمﷺ ایک چمڑے کے خیمے میں تشریف فرماتھے آپﷺ نے فرمایا قیامت سے پہلے چھ باتوں کا دھیان رکھو اور چھ باتیں گنتے رہو . (۱)میری موت اور میرا اس دنیا سے رخصت ہوجانا (۲)اس کے بعد بیت المقدس کا فتح ہونا (۳) ایک وبا کا وقوع جس طرح بکریوں میں بیماری پھیلتی ہے اور ریوڑ کے ریوڑ مرجاتے ہیں اسی طرح تم پر وبا آئے گی (۴)مال کی کثرت،یہاں تک کہ ایک شخص کو سو دینار دیے جائیں گے اور وہ سو دینار بھی خاطرمیں نہ لائےگا (۵)پھر ایک فتنہ جس سے عرب کا کوئی گھر محفوظ نہ رہے گا اور ہر شخص اس فتنے میں مبتلا ہوجائے گا (۶) پھر ایک تمہارے اور نصاری کے درمیان بڑے پیمانے پر صلح ہوگی؛ لیکن نصاری بد عہدی کریں گے اور ایک بہت بڑا لشکر لےکر تم پر حملہ آور ہوں گے۔ اس حدیث میں یہ چھ نشانیاں مذکور ہیں، جس میں سے بعض پوری ہو چکیں اور بعض باقی ہیں؛ مثلاً حضورﷺ کی وفات دوسرے بیت المقدس کا فتح ہونا جو حضرت عمرؓ کے عہد میں پورا ہوا ،حضرت عبیدہ بن الجراح لشکر کے سپہ سالار تھے، قلعہ کا محاصرہ کرنے کے باوجود قلعے کے بڑے راہب نے حضرت عبیدہ سے کہا ہماری کتابوں میں بیت المقدس فتح کرنے والے کا جو حلیہ لکھا ہوا ہے وہ تجھ سے نہیں ملتا، جب وہ شخص آئے گا تو ہم خود بیت المقدس اور قلعے کی کنجیاں اس کے حوالے کردیں گے؛چنانچہ امیرالمؤمنین عمر بن خطاب تشریف لے گئے اورراہب نے ان کی شکل دیکھ کر کنجیاں حوالہ کردیں اور کہا کہ جس شخص کا ذکر ہماری کتابوں میں لکھا ہے وہ یہی شکل ہے، پھر اس کے بعد عام وبا پھیلی اور تین دن میں ستر ہزار آدمی مرگئے، حضرت عبیدہ کا انتقال بھی اسی وبا میں ہوا، رہی کثرت اور بہتات مال کی تو یہ بھی خلفاء کے زمانے میں ہوگئی اور یہ روپیہ بکثرت مسلمانوں کے پاس آیا،فتنے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عثمان کا قتل ہے جس سے تمام عرب متاثر ہوا اور کوئی گھر باقی نہ رہا،جس میں اس فتنے کے اثرات نے پہنچے ہوں ،نصاری سے صلح اور نصاری کی بد عہدی شاید آخری زمانے میں ہوگا بہر حال جو علامتیں قیامت کی بیان فرمائی تھیں ان میں بیشتر کا ظہور ہوچکا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض پہلی کتابوں میں بیت المقدس کے سلسلہ میں اس امت کے حلیے بھی بتائے گئے ہیں۔