انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عطاء بن ابی رباح عطاء بن ابی رباح کی ولادت سنہ۲۷ھ میں اوروفات راجح قول کے مطابق سنہ۱۱۴ھ میں ہوئی،عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عمروبن العاصؓ اوردیگر صحابہ کرام سے آپ نے روایت کی ہے خود انکا اپنا بیان ہے میں نے دوسو صحابہ کا زمانہ پایا ہے۔ (التفسیر والمفسرون:۳۷) یحیی بن معین کہتے ہیں"عطاء کتاب اللہ کے معلم ہیں(تہذیب الکمال:۷۷۲۰)تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کے تلامذہ میں عطاء کثیر الروایت نہ تھے؛ بلکہ ان کے دوسرے رفقاء اس ضمن میں ان سے سبقت لے گئے تھے ہم دیکھتے ہیں کہ مجاھد اورسعید بن جبیر تفسیر قرآن میں عطاء کی نسبت زیادہ مہارت رکھتے تھے مگر عطاء کو تفسیر قرآن میں جو مقام حاصل ہے اس کی وجہ سے اس میں کچھ کمی نہیں آتی قلت روایت کی وجہ ان کی کثرت احتیاط اورتفسیر بالرائے سے ان کا اجتناب واحتراز ہے عبدالعزیز بن رفیع بیان کرتے ہیں کہ عطاء سے ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا گیا عطاء نے کہا مجھے نہیں معلوم سائل نے کہااپنی رائے سے بیان کردیجئے کہا مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ میری رائے کو دین قرار دیا جائے۔ (تاریخ تفسیر ومفسرین:۱۱۱) تفسیری اقوال (۱)اللہ تعالی کے اس فرمان "وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَى"میں کلمۃ التقوی کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ اس سے مراد"لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قديرہے"۔ (روح المعانی:۲۶۱۱۸ ) (۲)عطاء بن ابی رباح اللہ تعالی کے اس ارشاد: "إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ"۔ (الاحزاب:۳۵) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو اپنے سارے کام اللہ کے سپرد کردے وہ اللہ کے اس قول "إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَات" کے زمرہ میں داخل ہے اورجو اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ اس کا رب اورمحمدﷺ اس کے رسول ہیں اوراس کے دل و زبان میں یکسانیت ہو تو ایسے لوگ اللہ تعالی کے اس قول "وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ" میں داخل ہیں اور جو فرائض میں اللہ کی اطاعت کرے اورسنتوں میں رسولﷺ کی اطاعت کرے تو وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ" کے زمرہ میں داخل ہے اور جو اپنے کلام کو جھوٹ اورکذب بیانی سے محفوظ رکھے وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ" میں داخل ہے اورجو طاعات پر جما رہے معصیت سے بچا رہے اورمصائب پر صبر کرے تو وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ" کے زمرہ میں داخل ہے اور جو نماز اس دھیان سے پڑھے کے اسے معلوم نہ ہو کہ کون اس کے دائیں جانب کھڑا ہے اور کون بائیں تو وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ" کے زمرہ میں داخل ہے اور جو ہر ہفتہ ایک درہم صدقہ کرے وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ" میں داخل ہے اور جو ایام بیض یعنی ہر مہینہ چاند کی۱۳،۱۴،۱۵تاریخ کو روزہ رکھے وہ اللہ تعالی کے اس قول "وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ" میں داخل ہے اور حرام کاموں سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ" میں داخل ہے اورجو پنج وقتہ نماز اس طرح پڑھے جس طرح کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے تو وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد "وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ" کے زمرہ میں داخل ہے"أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا"کی تفسیر میں فرمایا اللہ تعالی ان کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور"أَجْرًاعَظِیْمًا" کی تفسیر میں فرمایا: کہ اللہ تعالی نے اس کے صلہ میں ان کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے۔ (تفسیر البغوی:۳۵۲۶۔ تفسیر الخازن:۱۹۳۵) (۳)اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : "لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ"۔ (المائدۃ:۲) اللہ تعالی کی نشانیوں کے بے حرمتی مت کرو۔ کی تفسیر کرتے ہوئے عطاء فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ سے مراد وہ تمام احکام ہیں جس کے کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے یا جس کے کرنے سے اللہ تعالی نے روکا ہے ۔ (تفسیر قرطبی:۳۷۶) (۴)اللہ تعالی کے اس ارشاد: "يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ"۔ (الانفال:۱) کی تفسیر کرتے ہوئے عطاء بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں وہ لوگ(یعنی مسلمان) آپ سے اس مال کے متعلق سوال کرتے ہیں جس مال سے مشرکین جنگ کئے بغیر علاحدہ ہوگئے یعنی چوپائے، غلام، باندی اور دیگر سازوسامان کے متعلق تو (اسکا جواب یہ ہے کہ) وہ خاص غنیمت رسول اللہ ﷺ کی ملکیت ہے،آپ اس کا جو چاہے کرے آپ کو اختیار ہے۔