انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یزید کو وصیت جب حالت زیادہ نازک ہوئی تو یزید کو بلا کر کہا کہ (اس وصیت کے متعلق مؤرخین کے بیان میں اختلاف ہے بعض لکھتے ہیں کہ معاویہؓ نے یزید کو خود بلاکر وصیت کی تھی اوربعضوں کے نزدیک یزید اس وقت موجود نہ تھا، اس لئے اپنے ندیم خاص ضحاک بن قیس فہری کو لکھوا کردی تھی کہ وہ ان کے بعد یزید کے حوالے کردے)جان پدر میں نے تمہاری راہ کے تمام کانٹے ہٹا کر تمہارے لئے راستہ صاف کردیا ہے اور دشمنوں کو زیر کرکے سارے عرب کی گردنیں جھکادی ہیں اور تمہارے لئے اتنا مال جمع کردیا ہے کہ اس سے پہلے کسی نےجمع نہ کیا ہوگا، اب میں تم کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ اہل حجاز کا ہمیشہ خیال رکھنا کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہیں، اس لئے جو حجازی تمہارے پاس آئے اس سے حسنِ سلوک سےپیش آنا اوراس کی پوری عزت کرنا اوراحسان کرنا اور جو نہ آئے اس کی خبر گیری کرتے رہنا، عراق والوں کی ہر خواہش پوری کرنا، حتیٰ کہ اگروہ روزانہ عاملوں کی تبدیلی کا مطالبہ کریں تو بھی پورا کرنا، کیونکہ عاملوں کا تبادلہ تلوار کے بے نیام ہونے سے زیادہ بہتر ہے، شامیوں کو اپنا مشیر کار بنانا اور ان کا خیال ہر حال میں مدِّ نظر رکھنا اور جب تمہارا کوئی دشمن تمہارے مقابلہ میں کھڑا ہو تو ان سے مدد لینا، لیکن کامیابی کے بعد ان کو فوراً واپس بلالینا، کیونکہ اگر یہ لوگ وہاں زیادہ مقیم رہیں گے، تو ان کے اخلاق بدل جائیں گے، سب سے اہم معاملہ خلافت کا ہے ،اس میں حسینؓ بن علیؓ عبداللہ بن عمرؓ، عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیرؓ کے علاوہ اورکوئی تمہارا حریف نہیں ہے، لیکن عبداللہ بن عمرؓ سے کوئی خطرہ نہیں انہیں زہد وعبادت کے علاوہ اور کسی چیز سے واسطہ نہیں ہے اس لیے عام مسلمین کی بیعت کے بعد ان کو بھی کوئی عذر نہ ہوگا، عبدالرحمن بن ابی بکر میں کوئی ذاتی ہمت اورحوصلہ نہیں جو ان کے ساتھی کریں اس کے وہ بھی پیرو ہوجائیں گے، البتہ حسینؓ کی جانب سے خطرہ ہے، ان کو عراق والے تمہارے مقابلہ میں لاکر چھوڑیں گے، اس لئے جب وہ تمہارے مقابلہ میں آئیں اور تم کو ان پر قابو حاصل ہوجائے تو درگزر سے کام لینا؛ کیونکہ وہ قرابت دار اور رسول اللہ ﷺ کے عزیر ہیں،البتہ جو شخص لومڑی کی طرح کا داؤ دے کر شیر کی طرح حملہ آور ہوگا وہ عبداللہ بن زبیرؓ ہے، اس لئے اگر وہ صلح کریں تو صلح کرلینا، ورنہ موقع اور قابو پانے کے بعد ان کو ہرگز نہ چھوڑنا، اوران کے ٹکڑے کرڈالنا۔ (یہ وصیت طبری اور الفخری کے بیان کا خلاصہ ہے، دیکھو طبری:۷/۱۹۶،۱۹۷ والفخری:۱۰۲)