انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** موفق ومعتضد کے ہاتھوں زنگیوں کا استیصال زنکیوں کی چیرہ دستی اور لشکر خلافت کا بار بار ان کے مقابلہ میں شکست پانا کوئی معمولی بات نہ تھی، قریباً دس سال ہوگئے تھے کہ زنگی برابر شاہی لشکر اور نامور سرداروں کونیچا دکھارہے تھے اور شہروں کے امن وامان کوغارت کرچکے تھے، ایک ایک زنگی نے دس دس اور پندرہ پندرہ علوی وہاشمی عورتیں اپنے تصرف میں رکھ چھوڑی تھیں، بہبوذ اور غبیث نامی ان کے سردار منبروں پرچڑھ کرخلفاءِ راشدین، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم اجمعین سب کوگالیاں دیتے تھے، بہبوذ نے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیا تھا، رسالت کا بھی مدعی تھا، قریباً ایک کروڑ مسلمانوں کوقتل کرچکے تھے، پیہم فتح مندی نے ان کی ہیبت دلوں پرطاری کردی تھی، ترکوں کے غرور بہادری کوبھی انہوں نے خاک میں ملادیا تھا، ترک ان کے نام سے لرزتے تھے، آخر خلیفہ معتمد کے بھائی موفق نے اپنے بیٹے ابوالعباس معتضد کوجوکہ بعد میں معتضد باللہ کے لقب سے خلیفہ ہوا، زنگیوں کی جنگ پرماہ ربیع الثانی سنہ۲۶۶ھ میں مامور کیا، ابوالعباس معتض نے واسط کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد زنگیوں کوشکست فاش دی، یہ پہلی قابل تذکرہ شکست تھی جوزنگیوں نے لشکر خلافت کے مقابلہ میں کھائی، اس کے بعد موفق خود بھی بیٹے سے جاملا اور باپ بیٹے نے مل کرزنگیں کوپیہم شکستیں دینی شروع کیں؛ حتی کہ چارسال تک برابر مصروفِ جنگ رہنے کے بعد سنہ۲۷۰ھ کے ماہ صفر المظفر کی پہلی تاریخ کوزنگیوں کا سردار غبیث مارا گیا اور فتنہ کا مکمل استیصال ہوگیا توشہر میں چراغاں کیا گیا اور بڑی خوشیاں منائی گئیں، ادھر موفق اور معتضد دونوں باپ بیٹے زنگیوں کے مقابلہ میں مصروف تھے، اُدھر موصل میں خوارج نے اُودھم مچارکھی تھی، مساورخارجی جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے، سنہ۲۶۳ھ میں مارا جاچکا تھا، اس کے بعد اس کے مریدین ومتبعین نے جمعیت فراہم کی اور ان کے دوگروہ ہوگئے، یہ دونوں گروہ آپس میں سنہ۲۷۶ھ تک مصروفِ جنگ رہے؛ مگردربارِ خلافت سے اس علاقہ میں امن وامان قائم کرنے کی کوشش عمل میں نہیں آئی؛ اسی سے تمام ممالک محروسہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔