انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت عبید اللہ بن عباس نام و نسب عبید اللہ نام، ابو محمد کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عبید اللہ بن عباسؓ بن عبدالمطلب ابن ہاشم قرشی ہاشمی ،ماں کا نام لبابہ تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے، لبابہ بنت حارث بن حزن بلالیہ عبیداللہ آنحضرتﷺ کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے۔ پیدائش و بچپن ہجرت سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے (ابن سعد تذکرہ عبیداللہ بن عباسؓ) حضرت عباسؓ کی اولادوں میں عبید اللہ باپ کے بڑے چہیتے تھے (مستدرک حاکم:۳/۵۶۷) آنحضرتﷺ کو حضرت عباسؓ سے خاص انس تھا، اس لیے ان کے بچوں کے ساتھ آپ ﷺ کو بڑی محبت تھی؛چنانچہ عبداللہ عبید اللہ اورکثیر تینوں کو بلاکر کھلاتے اورفرماتے تم میں سے جو دوڑ کر سب سے پہلے مجھ کو چھوئیگا، اس کو فلاں چیز دونگا تینوں بھائی دوڑتے،کوئی پشتِ مبارک پر چڑھ جاتا، کوئی سینہ سے چمٹ جاتا، آپ سب کو چمٹا کر پیار کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل،جلد اول ،ذکر عبید اللہ بن عباس) یمن کی حکومت اورحج کی امارت عبید اللہ عہد رسالت اورعہدِ شیخین میں کم سن تھے،اس لئے اس عہد کا کوئی واقعہ قابل ذکر نہیں ہے،عہد عثمانی میں بھی کہیں نہیں نظر آتے ،حضرت علیؓ نے اپنے زمانہ میں یمن کا والی بنایا، پھر ۳۶ھ اور ۳۷ھ میں امارتِ حج کا عہد ہ تفویض کیا؛چنانچہ ان دونوں سنوں کا حج عبیداللہ ہی کی امارت میں ہوا، بعض ارباب سیر لکھتے ہیں کہ ۳۸ھ میں بھی امیر الحج تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ۳۸ھ میں وہ نہیں ؛بلکہ ان کے بھائی قثم امیر تھے۔ (استیعاب:۲/۴۱۶) بچوں کا قتل ۴۰ ھ میں بسر بن ابی ارطاۃ امیر معاویہ کی جانب سے شیعیان علیؓ کو بجبر مطیع بنانے کے لیے یمن آیا، اس وقت عبید اللہ حضرت علیؓ کی جانب سے دہان کے والی تھے، ان میں بسر کے مقابلہ کی طاقت نہ تھی،اس لیے وہ یمن سےہٹ گئے،ا ن کے اہل و عیال یہیں تھے ،بسر نہایت ظالم تھا اوراس کے دل میں حضرت علیؓ کے حامیوں کی طرف سے اس قدر کینہ اور بغض بھرا ہوا تھا، کہ عبیداللہ کے دو کمسن بچوں کو ان کی ماں کے سامنے نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔ (اسد الغابہ:۲/۲۴۰) وفات زمانۂ وفات میں اختلاف ہے، استیعاب کی روایت کے مطابق ۵۸ھ میں وفات پائی۔ (استیعاب:۲/۴۱۶) فضل وکمال عبید اللہ جس خانوادۂ علم و عمل کے چشم و چراغ تھے،اس کے اعتبار سے انکا کوئی خاص علمی پایہ نہ تھا، آنحضرتﷺ کے عہد میں بہت کم سن تھے، اس لیے براہ راست آپ سے سماعِ حدیث کا موقعہ نہ ملاتا ہم حدیث کی کتابوں میں ان کی مرویات ملتی ہیں اورانہوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت عباسؓ سے اوران سے عبداللہ اورابن سیرین نے روایت کی ہے۔ (تہذیب الکمال:۲۵۱) فیاضی حضرت عباسؓ کے تمام لڑکوں میں کوئی نہ کوئی نمایاں وصف اورکمال موجود تھاحضرت عبداللہ فضل وکمال میں یکتائے عصر تھے،فضل حسن وجمال میں یگانہ تھے،عبیداللہ فیاضی اوردریادلی میں بے نظیر تھے،ان کے دسترخوان کے لیے ایک اونٹ روزانہ ذبح ہوتا تھا دوسرے بھائی عبداللہ کو یہ فیاضی ناپسند تھی، انہوں نے روکنا چاہا، تو اس دن سے دو اونٹ ذبح ہونے لگے،جب یہ دونوں بھائی ایک ساتھ مدینہ میں ہوتے تو ایک طرف تشنگان علم کے لیے عبداللہ کے یہاں علم کا دریا بہتا ،دوسری طرف بھوکوں کے لیے عبید اللہ کے یہاں صلائے عام ہوتی ،ایک مرتبہ عبید اللہ کہیں جارہے تھے،غلام ساتھ تھے، چلتے چلتے شام ہوگئی ایک اعرابی کا گھر دکھائی دیا، غلام نے کہا اگر ہم لوگ رات بھر کے لیے اس گھر میں ٹھہر جاتے تو بہتر ہوتا، رات ہوچکی تھی،اس لیے عبید اللہ کو بھی یہ رائے پسند آئی اور خادم وآقا دونوں اعرابی کے گھر پہنچے،عبید اللہ نہایت وجیہ تھے، اعرابی دیکھ کر سمجھا کہ کوئی بڑا آدمی ہے، بڑے اعزاز واکرام کے ساتھ اتارا اوربیوی سے جاکر کہا کہ ہمارے یہاں ایک معزز مہمان آیا ہے، کچھ کھانے پینے کا سامان ہے؟ بیوی نے جواب دیا کھانے کو تو کچھ نہیں ہے،صرف یہ ایک بکری ہے جس کے دودھ پر تمہاری لڑکی کی زندگی ہے، بدوی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مہمان کو بھوکا رکھا جائے بیوی سے کہا کچھ بھی ہو بکری ذبح کرنا چاہیے، بیوی نے کہا کیا لڑکی کو مارڈالوگے، اعرابی نے کہا بہرحال بکری ذبح کرنا ضروری ہے؛چنانچہ بکری ذبح کرکے رات کا کھانا کھلایا، عبیداللہ یہ تمام گفتگو سن رہے تھے،صبح کو اٹھ کر غلام سے پوچھا تمہارے پاس کچھ ہے، اس نے کہا پانسو اشرفیاں ہیں حکم دیا اعربی کو دیدو غلام نے کہا سبحان اللہ ۵ درہم کی بکری کھلائی اورآپ پانسو دینار روپئے دیتے ہیں ،بولے تیری عقل پر افسوس ہے خدا کی قسم ! وہ ہم سے کہیں زیادہ سر چشم اور دریا دل ہے ہم تو اپنی مملوکہ دولت سے بہت حقیر رقم اسے دے رہے ہیں،اوراس نے اپنے لخت جگر کو قربانی کرکے ہمیں بکری کھلائی ۔ (اسد الغابہ:۳/۲۴۱)