انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہلاکو خان جب قراقورم میں منکوخان تختِ سلطنت پر بیٹھا تو اُس کے پاس شکایت پہنچی کہ گروہ باطنیہ اسمٰعیلیہ کی شرارتیں حد سے متجاوز ہوچکی ہیں اوریہ لوگ بلا قید مذہب و قوم ہر ایک اُس شخص کے دُشمن ہیں جو تخت و تاج کا مالک یا سرداری و سپہ سالاری کی عزت سے مفتخر ہو،امراء وسرداران لشکر کو ان فدائیوں یعنی باطنیوں کے خوف سے راحت کی نیند نہیں آسکتی،ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی پہنچیں کہ خلیفہ بغداد اگرچہ بظاہر کمزور سمجھا جاتا ہے مگر اُس کی عظمت و شوکت اس قسم کی ہے کہ اگر وہ مغلوں کے مقابلے پر مستعد ہوگیا تو مغلوں کو اُس سے عہدہ برآہونا دشوار ہوگا، منکوقاآن نے اپنے بھائی ہلاکو خان کو ایک لاکھ بیس ہزار مغلوں کی جرّار فوج کے ساتھ روانہ کیا اورحکم دیا کہ دریائے جیحون سے مصر تک کا ملک تمہاری حفاظت اور نگرانی میں دیا جاتا ہے،اگر خلیفہ بغداد صلح وآشتی پر قائم رہے تو تم کو اُس سے لڑنا نہیں چاہئے،لیکن اگر خلیفہ کی نیت غیر ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اُس کے استیصال میں دریغ نہ کرو ساتھ ہی الموت کے قلعہ میں اسمعیلیوں کا بادشاہ اقامت گزیں ہے اُس کا نام ونشان مٹادو اوران اسمعیلیوں کی اچھی طرح بیخ کنی کردو،ہلاکو خاں کے ہمراہ امیر ایچل ابن امیر قراچار سپہ سالار روانہ کیا گیا۔ ہلاکو خان ۶۵۱ھ میں واردِ خراسان وایران ہوا،آذربائی جان وشروان وگرجستان وغیرہ کے سلاطین ہلاکو خان کی خد مت میں حاضر ہوئے اور اظہارِ عقیدت ونیاز مندی کے بعد موردِ مراحمِ خسر وانہ ہوئے،ارغون آقا اویرات خراسان سے منکوخان قآن کی خدمت میں روانہ ہوا، ہلاکو خاں نے خراسان پہنچ کر اوریہاں کے حالات سے واقف وآگاہ ہوکر اوّل ملاحدہ اسمٰعیلیہ کی طرف توجہ کی اوریکے بعد دیگرے اُن کے قلعوں پر قبضہ کرنا شروع کیا،یہاں تک کہ یکم ذیقعدہ ۶۵۶ھ بروز یکشنبہ قلعہ الموت فتح ہوگیا اوراسمعیلیوں کا بادشاہ رکن الدین خورشاہ ہلاکوخاں کے سامنے گرفتار ہوکر حاضر ہوا،ہلاکوخان نے خورشاہ کو منکوخاں کی خدمت میں قرقورم کی طرف روانہ کیا اورجن لوگوں کی حراست میں اس کو روانہ کیا تھا،اُن کو حکم دیا کہ راستے ہی میں اُس کا کام تمام کردینا؛چنانچہ ایسا ہی ہوا،رکن الدین خورشاہ کے اہل و عیال اور متعلقین سب قتل کئے گئے،مگر خواجہ نصیر الدین طوسی جو خورشاہ کی مصاحبت میں داخل تھا اپنی زبان آوری اور ہوشیاری کے سبب ہلاکوخاں کے مصاحبوں میں داخل ہوگیا،اسمعیلیوں کے تمام خزائن ودفائن مغلوں کے ہاتھ سے تاراج ہوئے اوراُن کی سلطنت کا چراغ گل ہوگیا۔ اس کے بعد نصیر الدین طوسی نے ہلاکو خان کو بغداد پر فوج کشی کرنے کی ترغیب دی اور خلیفہ بغداد کے وزیر علقمی نے نمک حرامی کی راہ سے نصیر الدین کے ذریعہ ہلاکوخان سے ساز باز کیا اوربغداد کی تباہی عمل میں آئی بغداد کی بربادی کا مفصل حال اوپر دوسری جلد میں چونکہ بیان ہوچکا ہے،اس لئے اس دل خراش داستان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں،اموال خزائن بے قیاس بغداد سے لے کر ہلاکو خان کی خدمت میں قراقورم کی طرف روانہ کئے اتابک سعد بن ابو بکر حاکم فارس اوربدرالدین لولو حاکم موصل اورسلطان عزیز الدین سلجوقی حاکمِ روم نے حاضر ہوکر اظہارِ اطاعت کیا،بروز جمعہ ۲۰ رمضان المبارک ۶۵۷ھ ہلاکو خاں نے کئی نامور سرداروں کو فوج دے کر بطور ہراول ملک شام کی طرف روانہ کیا، نصیبین ،حران، حلب وغیرہ شہروں کو فتح اوراُن کے باشندوں کا قتلِ عام کرتا ہوا دمشق کی جانب پہنچا،دمشق کو بھی اسی طرح فتح کیا اورملکِ شام پر قابض ہوکر اوروہاں اپنی طرف سے ایک حاکم کسوقانامی کو مقرر کرکے ہلاکو خان خراسان کی طرف واپس آیا،مصری لشکر نے ملکِ شام پر حملہ کرکے مغلوں کی فوج کو شکست دے کر بھگا دیا،اس خبر کو سن کر ہلاکو خان بہت رنجیدہ ہوا اور ارادہ کیا کہ ملکِ شام پر فوج کشی کرکے مصریوں کو شام سے نکالے،مگر اسی اثنا میں منکوخاں کے فوت ہونے کی خبر پہنچی اورانہیں ایام میں ایک اور واقعہ پیش آیا کہ برکہ خان ابن جوجی خان بادشاہ قبچاق اورہلاکوخاں کے درمیان مخالفت اورناچاقی پیدا ہوئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہلاکو خان کے پاس برکہ خاں کا کوئی قریبی رشتہ دار تھا اس کوہلاکو خان نے قتل کردیا برکہ خان نے سُن کر کہا کہ ہلاکوخان نے خلیفہ بغداد کو قتل کیا اوربلاوجہ لاکھوں مسلمانوں کا خون بہادیا،میں اُس سے ان تمام بے گناہوں کا انتقام لوں گا، یہ کہہ کر اُس نے فوج روانہ کی،ادھر سے ہلاکوخان نے بھی اُس کے مقابلہ کو فوج بھیجی،۶۶۰ھ میں جنگ ہوئی اور ہلاکوخان کی فوج نے شکست پائی،اس کے بعد لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا،آخر ۶۶۱ھ میں ہلاکوخان خود فوج لے کر برکہ خان کے مقابلہ پر آیا،جنگ عظیم کے بعد برکہ خان کی فوج کو شکست ہوئی اورہلاکو خاں نے فتح پائی مگر چند ہی روز کے بعد برکہ خان نے ہلاکو خاں پر حملہ کرکے اُس کو شکستِ فاش دی، اس شکست سے ہلاکوخاں بہت دل شکستہ ہوا،اسی عرصہ میں امیرایچل نے مراغہ میں وفات پائی،جب مغلوں نے ملکِ شام کو فتح کرلیا تھا تو وہاں قوم قراتاتار کے قبیلوں کو آباد کیا تھا۔