انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت امرؤ القیسؓ نام ونسب امرؤالقیس نام، باپ کا نام حابس تھا، نسب نامہ یہ ہے امرؤ القیس بن حابس بن منذر بن امرؤ القیس بن سمط بن عمرو بن معاویہ بن حارث الاکبر بن معاویہ بن ثور بن مرتع بن معاویہ ابن حارث کندی۔ اسلام ۱۰ھ میں کندہ (حضرت موت) کے وفد کے ساتھ مدینہ آکر آنحضرتﷺ کے دست حق پر ست پر مشرف باسلام ہوئے،قبول اسلام کے بعد پھر وطن واپس چلے گئے۔ فتنہ ارتداد کے تدارک میں سعی بلیغ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جب عرب کے قبائل میں ارتداد کی وبا پھیلی تو امرؤا لقیسؓ کا پورا قبیلہ مرتد ہوگیا، لیکن ان کے پائے ایمان میں لغزش نہ آئی اور انہوں نے اپنے قبیلہ کو دوبارہ دائرہ اسلام میں واپس لانے کی پوری کوشش کی اوراس کے لئے افہام و تفہیم زجر وتوبیخ وغیرہ تمام امکانی ذرائع صرف کردیئے،کندہ کے رئیس اشعت بن قیس بھی جو حضرت حسنؓ کے خسرتھے، مرتد ہوگئے تھے،امرؤ القیس نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس فتنہ سے خدا ابوبکرؓ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، مخالفوں کو ناکامی ہوگی اوران کا سر قلم کردیا جائے گا، تم اپنے اوپر رحم کرو اوراس فتنہ سے بچو اگر تم اس کارخیر کی طرف قدم بڑھاؤ گے، تو سب تمہاری پیروی کریں گے اورپیچھے رہو گے تو ان میں اختلاف پیدا ہوگا، اشعت نے جواب دیا، عرب اپنے آبائی مذہب پر لوٹ رہا ہے، امرؤ القیس نے کہا خیر تو تم کو بہت جلد اس کا تجربہ ہوجائے گا ،رسول اللہﷺ کے عمال تم کو کبھی ارتداد کی حالت میں نہیں چھوڑسکتے۔ (ابن عساکر:۲/۱۱۳،بحوالہ ابن سعد) ارباب سیر لکھتے ہیں،کان لہ عناء وتعب فی الررۃ یعنی فتنہ ارتداد کے فروکرنے میں انہوں نے بڑی ان تھک کوشش کی،ان کی مخلصانہ کوششیں بار آور ہوئیں اورکندہ کے بہت سے گھرانے ارتداد سے بچ گئے اورانہوں نے حضرت ابوبکرؓ کو ان اشعار میں اس کی اطلاع بھیجی۔ ألا بلغ أبا بكر رسولاً وبلغها جميع المسلمينا فليس بمجاورا بيتي بيوتاً بما قال النبي مكذبينا الحب فی اللہ والبعض فی اللہ امرؤ القیسؓ کا دل جوشِ ایمانی سے اس قدر معمور تھا کہ ارتداد کے سلسلہ میں انہوں نے اپنے خاص اعزہ کی محبت بھی دل سے نکال دی تھی اوران کی تلوار ان کے مرتد اعزہ کے مقابلہ میں بھی بے نیام ہوئی ،فتنہ ارتداد فروہونے کے بعد جو باغی مرتد قتل کرنے کے لئے لائے گئے ان میں امرأ القیس کے چچا بھی تھے،امرؤ القیس خود انہیں قتل کرنے کے لئے بڑھے، چچا نے کہا کیا تم چچا کو بھی قتل کرو گے؟ امرؤ القیسؓ نے کہا بیشک آپ مرے چچا ہیں ،لیکن اللہ عزوجل میرا رب ہے۔ دین کیلئے دنیا سے دست بردادری انسان کے لئے سب سے بڑی آزمائش مال و دولت ہے، امرؤ القیسؓ نے آخرت کے مقابلہ میں کبھی دنیاوی مال و متاع کی پروانہ کی ایک مرتبہ ان میں اور ربیعہ بن عبدان حضرمی میں ایک زمین کے بارہ میں تنازعہ ہوگیا، آنحضرتﷺ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا، ربیعہ مدعی تھے، آنحضرتﷺ نے فرمایا تم ثبوت پیش کرو ورنہ امرؤ القیس سے قسم لے کر اُن کے موافق فیصلہ کردیا جائے گا، ربیعہ نے کہا اگر وہ قسم کھائیں گے تو میری زمین مفت میں چلی چائے گی،آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص اس نیت سے قسم کھائیگا کہ اس سے مالی منفعت حاصل کرے، تو وہ خدا سے اس حالت میں ملے گا کہ خدا اس سے ناراض ہوگا، امرؤ القیس ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! جو شخص اپنا حق سمجھتے ہوئے اس سے دست بردار ہوجائےاس کو کیا اجر ملے گا، فرمایا: جنت،عرض کیا تو میں اس زمین سے ان کے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔ (اسد الغابہ:۵/۱۱۵)