انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ثعلبہ بن سعیتہ نام ونسب ثعلبہ نام، باپ کا نام سعیہ، قبیلہ ہدل (اس کی تحقیق حضرت اسید رضی اللہ عنہ کے حالات میں گذرچکی ہے) جوبنوقریظہ کی ایک شاخ تھی اس سے نسبی تعلق تھا، حضرت اسید رضی اللہ عنہ جن کا اُوپر ذکر آچکا ہے ان کے حقیقی بھائی تھے۔ اسلام جب بنوقریظہ کے قتل کا فیصلہ ہوا توحضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ قبیلہ کے دوتین نوجوانوں کے ساتھ اہلِ قبیلہ کے پاس گئے اور ان کوابن الہیبان (پورا قصہ حضرت اسید رضی اللہ کے حالات میں لکھا جاچکا ہے) کی وصیت اور اس کا وعدہ یاد دلاکر سمجھانےکی کوشش کی اور اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی؛ لیکن جب یہ کوشش بے سود رہی تواپنے بھائی حضرت اسید اور قبیلہ کے ایک اور نوجوان اسد بن عبید کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر خود اسلام قبول کیا ((اصابہ، ذکر اسید:۱/۳۳) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام کے ساتھ اسلام لائے مگر صاحب اسدالغابہ نے اس کی تردید کی ہے، ابن ہشام وغیرہ کا بیان بھی اس کے خلاف ہے (اسدالغابہ:۱/۲۴۱۔ ابن ہشام:۲/۱۶۹))۔ آپ کی زندگی کے اور دوسرے حالات نہیں مل سکے۔ وفات سنہ وفات کی تصریح نہیں مل سکی؛ البتہ امام بخاری کے بیان سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں وہ اس دارِ فانی کوچھوڑ چکے تھے۔ (اسدالغابہ:۲/۲۴۱) فضل وکمال اہلِ کتاب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عام فضائل ومحامد کے ساتھ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ ابن سعیہ کویہ شرف بھی حاصل ہوا کہ جب حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا غزوۂ بنوقریظہ میں گرفتار ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں توآپ کی خواہش ہوئی کہ وہ اسلام قبول کرلیں؛ مگروہ کسی طرح اس پرراضی نہ ہوئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے اسلام نہ لانے کا بے حد رنج تھا، ایک روز آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ ابن سعیہہ آئے اور آہستہ سے آپ سے حضرت ریحانہ رضی اللہ عنہا کے اسلام قبول کرلینے کی خوشخبری سنائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسرت آمیز لہجہ میں حاضرین سے فرمایا کہ ثعلبہ ریحانہ کے اسلام کی خوشخبری لے کر آئے ہیں۔ (ابن ہشام، جلد:۲)