انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح مکہ سے وفات تک فتح مکہ ماہ شعبان ۸ھ میں مکہ کے اندر ایک عجیب حادثہ رونما ہوا،بنو خزاعہ اوربنو بکر حدیبیہ کے صلح نامہ کی رو سے اپنی عداوتوں کو فراموش کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورقریش مکہ کے حلیف بن گئے تھے اب وہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوسکتے تھے،بنو بکر کی نیت بگڑی اوران کے سردار نوفل بن مغاوبہ نے خزاعہ سے بدلہ لینا چاہا،قریشِ مکہ کا فرض تھا کہ وہ اپنے حلیف بنو بکر کو اس ارادے سے باز رکھتے اور بنو خزاعہ پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف تھے حملہ نہ کرنے دیتے کیونکہ حدیبیہ میں دس سال کے لئے صلح ہوئی تھی، لیکن قریشِ مکہ نے بنو بکر کو ہتھیاروں وغیرہ سے مدد دی اور قریش میں سے صفوان بن اُمیہ عکرمہ بن ابی جہل،سہیل بن عمرو وغیرہ نے بنو بکر کے ساتھ حملہ میں شرکت کی،بنو بکر معہ سردارانِ قریش بنو خزاعہ پر جا چڑھے اوراچانک اُن کو قتل کرنا شروع کردیا،یہ حملہ رات کے وقت ایسی حالت میں کیا گیا کہ بنو خزاعہ پڑے ہوئے سورہے تھے، بنو خزاعہ مقابلہ سے مجبور ہوکر حرم میں جا چھپے ، ظالموں نے وہاں بھی اُن کو نہ چھوڑا،بُدیل بن ورقہ خزاعی کے گھر میں گھس کر اس کا تمام گھر بار لوٹ لیا، اس شبخون میں بنو خزاعہ کے بیس یا تیس آدمی مارے گئے جن میں سے بعض بیت اللہ کے اندر قتل کئے گئے، بدیل بن ورقہ اور عمرو بن سالم معہ اپنی قوم خزاعہ کے چند آدمیوں کے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بنو بکر اورقریش کے اس نقضِ عہد کی شکایت کریں ،جس رات مکہ میں معاہدہ صلح کی ایسی ظالمانہ طور پر دھجیاں اڑائی جارہی تھیں ،خزاعہ کےچند آدمیوں نے آنحضرتﷺ کانام لےکر فریاد کی کہ اے خاتم النبین ہماری مدد کیجئے اورفریاد سنئے ،بنی بکر نے ہم پر ظلم کیا ہے،اُ س وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ کے حجرے میں وضو کررہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزاعہ والوں کی یہ فریاد جو مکہ میں کررہے تھے،مدینہ میں سُنی اورفوراً! جواب میں لبیک لبیک فرمایا ،حضرت میمونہؓ نے عرض کیا کہ لبیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کے جواب میں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس وقت بنو خزاعہ کے لوگوں کی فریاد میرے کانوں تک پہنچی ہے،اُس کا جواب میں نے دیا ہے، عجیب تر یہ کہ بنو خزاعہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز اپنی فریاد کے جواب میں سُنی ،صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ رات مکہ میں بنو خزاعہ کو بنو بکر اورقریش نے مل کر قتل کیا ہے، حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گمان ہے کہ قریش بد عہدی کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے ضرور عہد شکنی کی ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ اُن کے حق میں حکم صادر کرنے والا ہے، کئی روز کے بعد بُدیل بن ورقہ اور عمرو بن سالم خزاعی مدینے میں پہنچے،قریشِ مکہ کی عہد شکنی اورمظالم کی شکایت کی،عمروبن سالم خزاعی نے ایک نہایت پر درد نظم میں اپنی مظلومی کی داستان سُنائی ،اُس نظم کے بعض شعر یہ ہیں: اِنَّ قُرَیْشَ اَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَنَضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُوَکَّدَا وَجَعَلُوْالِیْ فِیْ کَدَاءِ رَصَدًا وَزَعَمُوااَنْ لَیْسَتْ اَدْعُوْا اَحَدًا وَھُمْ اَذَلُّ وَاَقَلُّ عَدَدًا ھُمْ بَیَّتُونَا بِالْوَتِیْرِھَجَدَا قریش نے آپ کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہےاور انہوں نے مضبوط معاہدہ کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا تو ڑ ڈالا ہے۔اور ہمیں خشک گھاس کی طرح پامال کردیا ہےاور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری مدد کو کوئی نہ آئے گا۔اور وہ ذلیل ہیں اور تعداد میں قلیل ہیں انہوں نے وتیر(وہ محلہ جہاں بنو خزاعہ آباد تھے) میں ہم کو سوتے ہوئے جالیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو خزاعہ کے ان لوگوں کی تسلی وتشفی کی اورکہا کہ ہم تمہاری امداد کو ضرور پہنچیں گے،اُن لوگوں کو آپﷺ نے مدینہ سے مکہ کی جانب رخصت فرمادیا ،جب یہ لوگ مدینے سے رخصت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو سفیان مکہ سے مدتِ صلح بڑھانے اورعہد کو مضبوط کرنے کے لئے روانہ ہوگیا ہے لیکن وہ ناکام واپس جائے گا۔ مکہ والوں کو جب اپنے کرتوت کے نتائج پر غور کرنے کا موقع ملا تو وہ بہت خائف ہوئے اور ابو سفیان کو روانہ کیا کہ مدینے میں جاکر شرائط صلح از سر نو قائم کرے،اُدھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ سفر اور لڑائی کی تیاری شروع کردو، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی اس تیاری کے پوشیدہ رکھنے کی تاکید فرمائی،اُدھر بُدیل بن ورقہ معہ ہمراہیوں کے مدینے سے واپس جارہے تھے اور ابو سفیان مکہ سے مدینہ کو آرہے تھے،راستہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی ابو سفیان نے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسی وادی تک آئے تھے،ابو سفیان کو یہ یقین تھا کہ ابھی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک مکہ کے اس واقعہ کی خبر نہ پہنچی ہوگی،اسی لئے وہ صلح نامہ کی تجدید جلد از جلد کرانا چاہتا تھا۔