انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مستعصم باللہ مستعصم باللہ بن مستنصر باللہ سنہ۶۹۰ھ میں ایک اُم ولد موسومہ ہاجر کے بطن سے پیدا ہوا اور اپنے باپ کی وفات کے بعد تختِ خلافت پربیٹھا، اس خلیفہ میں عقل وفہم اور بیدار مغزی کی کمی تھی؛ اگرچہ خود دین داری اور اتباعِ سنت کی طرف مائل تھا؛ مگراپنا وزیر مویدالدین علقمی کوبنایا جوغالی شیعہ تھا، علقمی نے عہدہِ وزارت پرفائز ہوتے ہیں خلیفہ کوکٹھ پتلی کی طرح اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کوعضومعطل بناکر سیاہ وسفید کا مالک ومختار بن گیا، علقمی نے شیعوں کوآگے بڑھانا اور ہرقسم کی رعایتوں سے مستفید کرنا شروع کردیا، دیلمیوں کے زمانے میں جوبدعات جاری تھیں، ان کوپھرزندہ کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ سنیوں میں وہی فسادات پھربرپا ہونے لگے، جودیلمیوں کے عہد اقتدار میں برپا رہتے تھے، ساتھ ہی علقمی اس کوشش میں مصروف ہوا کہ کسی طرح سے عباسیوں کا نام ونشان گم کرکے بغداد میں علویوں کی خلافت قائم کروں، بغداد میں بعض سمجھدار اور علقمی کے ان فاسد خیالات سے خبردار لوگ بھی تھے؛ انھوں نے خلیفہ کوعلقمی کی غدارانہ کوششوں اور منصوبوں سے آگاہ کیا، خلیفہ اس قدراحمق اور پست ہمت تھا کہ اس نے ان لوگوں کی تمام باتوں کوخود علقمی سے بیان کیا، علقمی نے فوراً اپنی وفاداری اور فرماں برداری کا یقین دلاکر ان لوگوں کوغدار وفتنہ پرداز بتایا اور خلافت مآب کواس کا یقین آگیا، علقمی کا اقتدار اور بھی زیادہ بڑھ گیا اور خیرخواہوں کی زبانیں نصیحت گری سے بالکل بند ہوگئیں۔ اس کے بعد علقمی نے خلیفہ کولہوولعب اور شراب نوشی کی طرف مائل کردیا اور اندیشہ سے محفوظ ہوگیا، چند روز کے بعد خلیفہ کے بیٹے ابوبکر نے شیعوں کی دست درازیوں کوروکنے کے لیے خود بغداد کے محلہ کرخ پرحملہ کیا، جوبالکل شیعوں کی آبادی تھی اور علقمی نی نسبت بھی سخت سست الفاظ کہے، اس سے علقمی کوسحت ملال ہوا اور خلیفہ سے شکایت کی؛ مگرخلیفہ نے بیٹے کا لحاظ کیا اور علقمی کے حسب منشاء ابوبکر کوسزا نہ دی، اس سے علقمی کی غداری میں اور بھی اضافہ ہوگیا، اس نے چنگیز حان کے پوتے ہلاکوخان سے جوتاتاریوں کا سردارِ اعظم اور خراسان وغیرہ ممالک کا بادشاہ تھا، خط وکتابت شروع کی، ہلاکوخان کے پاس جب علقمی کا پہلا خط پہنچا توہلاکوخان نے اس پرزیادہ توجہ نہ کی، علقمی نے لکھا تھا کہ میں بڑی آسانی سے بلاجدال وقتال خلیفہ بغداد اور ملکِ عراق پرآپ کا قبضہ کرادوں گا، آپ اس طرف ضرور فوج کشی کریں، اس کے جواب میں ہلاکوں خان نے علقمی کے ایلچی سے صرف یہ کہا کہ علقمی جووعدہ کرتا ہے، اس کے لیے کوئی کافی ضمانت نہیں، ہم اس کی بات پرکس طرح یقین کرلیں، حقیقت یہ تھی کہ خلیفہ کی کثرت افواج، عربوں کی بہادری اور اہلِ بغداد کی شجاعت سے مغل بہت مرعوب تھے اور شام کے ملک میں ان کے لشکر کوعرب قبائل کے مقابلے میں شکستیں بھی حاصل ہوچکی تھیں، علقمی نے خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوکر محاصل ملکی کی کمی اور فوج کی تنخواہوں کے زیادہ ہونے کی شکایت کرکے تخفیف لشکر کی تجویز پیش کی اور خلیفہ نے منظور کرلی۔ لشکر بغداد کا بڑا حصہ دوسرے شہروں اور ولایتوں میں منتشر کردیا گیا، جوتھوڑے سے آدمی بے، ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے یہ صورت اختیار کی کہ بازار کا محصول وصول کرنے کی لشکریوں کواجازت دے دی، اس سے شہروالوں کوسخت اذیت پہنچی اور شہر میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا، فوج کے بہت سے دستوں کووزیرعلقمی نے موقوف کرکے نکال دیا اور خلیفہ کہہ دیا کہ ان کو تاتاریوں کی روک تھام کے لیے سرحد پرروانہ کیا گیا ہے، مقام حلہ میں شیعوں کی آبادی زیادہ نہ تھی، حلہ کے شیعوں کوآمادہ کرکے ان سے ہلاکوکے پاس خطوط بھجوائے، جن میں لکھا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے بہ طور پیش گوئی ہم کوخبر دی تھی کہ فلاں سنہ میں فلاں تاتاری سردار بغداد اور عراق پرقبضہ کرلے گا، ان کی پیشین گوئی کے موافق آپ ہی وہ فاتح سردار ہیں اور ہم کویقین ہے کہ آپ کا قبضہ اس ملک پرہونے والا ہے؛ لہٰذا ہم قبل ازوقت اپنی فرماں برداری کا اقرار کرتے اور آپ سے اپنے لیے امن طلب کرتے ہیں، ہلاکوخان نے ان کے قاصد کوبہ خوشی امن نامہ لکھ کردے دیا، ہلاکوخان کے دربار میں نصیرالدین طوسی کوبڑا رسوخ حاصل تھا اور وہ وزارت کی خدمات انجام دیتا تھا، نصیرالدین طوسی بھی علقمی کی طرح غالی شیعہ تھا اور علقمی نے نصیرالدین کوخط لکھا کہ جس طرح ممکن ہو، ہلاکوخان کوبغداد پرحملہ کرنے کی ترغیب دو، اس وقت عباسیوں کی تباہی کے لیے بہترین موقع حاصل ہے، ساتھ ہی ہلاکوخان کے نام عریضہ روانہ کیا اور لکھا کہ میں نے بغداد کوفوجوں سے خالی کردیا ہے اور سامانِ حرب سب باہر بھیج دیا ہے، اس سے بڑھ کرآپ کیا ضمانت چاہتے ہیں، اس عریضہ کے ساتھ ہی والی اربل سے ایک درخواست بھجوائی، اس میں بھی بغداد پرحملہ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ ہلاکوخان کے پاس یہ خطوط اس وقت پہنچے جب کہ وہ قرامطہ یعنی اسماعیلیوں سے قلعہ الموت فتح کرچکا تھا اور اسماعیلیوں کا آخری بادشاہ گرفتار ہوکر اس کے سامنے آچکا تھا، ہلاکوخان نے نصیرالدین طوسی سے مشورہ طلب کیا، نصیرالدین نے کہا کہ علمِ نبوم سے تویہی معلوم ہوتا ہے کہ بغداد پرآپ کا قبضہ ہوجائے گا، اس لیے بغداد پرحملہ آور ہونے میں آپ کوکوئی نقصان نہ پہنچے گا؛ چنانچہ ہلاکوخان نے ایک زبردست فوج بہ طور مقدمۃ الجیش بغداد کی جانب بھیجی، جب اس لشکر کے قریب پہنچنے کی خبرمستعصم باللہ نے سنی توفتح الدین داؤد اور مجاہد بن ایبک کودس ہزار سواروں کے ساتھ روانہ کیا، اس لشکر کا سپہ سالار فتح الدین تھا جوتجربہ کارسپہ سالار اور بہادر شخص تھا، مغلوں کے لشکر کوشکست ہوئی اور وہ میدانِ جنگ سے فرار ہوئے، فتح الدین نے اسی جگہ قیام کرنا مناسب سمجھا؛ مگرمجاہدین نے اپنی ناتجربہ کاری سے تعاقب کرنے پراصرار کیا، فتح الدین نے مجبوراً مغلوں کا تعاقب کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں نے لوٹ کرمقابلہ کیا، پیچھے سے وہ مغل جوکمین گاہ میں چھپ گئے تھے، حملہ آور ہوئے، لشکر بغداد بیچ میں گھرکرحواس باختہ ہوگیا، فتح الدین میدانِ جنگ میں مارا گیا اور مجاہدین نے بھاگ کربغداد میں دم لیا، مجاہدین ہی کی بدتدبیری سے لشکر بغداد کی فتح شکست سے تبدیل ہوگئی؛ مگرخلیفہ مستعصم نے اپنی فطری حماقت سے اس بھگوڑے سردار کودیکھ کرتین مرتبہ کہا: الحمد للہ علی سلامۃ مجاھدالدین۔ لشکر بغداد کوشکست ہوئی؛ مگرہلاکوخاں کا مقدمۃ الجیش بھی پریشان ومجروح ہوچکا تھا، اس لی خلیفہ مستعصم مطمئن تھا کہ رسیدہ بودبلائے ولے بخیر گزشت؛ مگرعلقمی جس نے خلیفہ کواب تک بالکل بے خبر رکھا تھا، اپنے دلمیں خلیفہ کی حماقت پرہنس رہا تھا کہ اتنے میں یکایک خبر مشہور ہوئی کہ ہلاکوخان نے افواج کثیر کے ساتھ بغداد کا محاصرہ کرلیا ہے، اہلِ شہر نے مدافعت کی کوشش کی اور پچاس روز تک تاتاریوں کوشہر میں نہیں گھسنے دیا، شہر کے شیعوں نے ہلاکوخان کے لشکر میں جاجاکر امن حاصل کی اور شہر کے حالات سے آگاہی کیا، وزیرعلقمی شہر کے اندر ہی رہا اور برابر ہلاکوخان کے پاس دم دم کی خبریں بھیجتا رہا۔ چونکہ وزیرکواہلِ شہر سے ہمدردی نہ تھی؛ لہٰذا اہلِ شہر دم بہ دم کمزور وپریشان ہوتے گئے، آخروزیرعلقمی اوّل شہر سے نکل کرہلاکوں خان سے ملا اور صرف اپنے لیے امن طلب کرکے واپس آیا اور خلیفہ سے کہا کہ میں نے آپ کے لیے بھی امن حاصل کرلی ہے، آپ ہلاکوخان کے پاس چلیں، وہ آپ کوملکِ عراق پراسی طرح قابض ومتصرف رکھے گا، جیسا کہ غیاث الدین کنیحسرو کوتاتاریوں نے اس کے ملک پرحاکم وفرماں روا رکھا ہے، خلیفہ مع اپنے بیٹے کے شہر سے نکل کرہلاکو خان کے لشکر میں پہنچا، ہلاکوخان نے خلیفہ کودیکھ کرکہا کہ اپنے اراکینِ سلطنت اور شہر کے علماء کوبھی آپ بلوائیں، خلیفہ کوہلاکوخان نے اپنے لشکر میں روکے رکھا، خلیفہ کا حکم سن کرعلماء اور اراکینِ سلطنت شہر سے نکل کرلشکر تاتار میں آئے، ان سب کوایک ایک کرکے قتل کردیا گیا، اس کے بعد ہلاکونے خلیفہ سے کہا کہ تم شہر میں پیغام بھیج دوکہ اہلِ شہر ہتھیار رکھ کرسب خالی ہاتھ شہر سے باہر آجائیں، مستعصم نے یہ پیغام بھی شہر میں بھیج دیا، اہل شہر باہر نکلے اور تاتاریوں نے ان کوقتل کرنا شروع کیا، شہر کے تمام سوار وپیادے اور شرفاء کھیرے ککڑی کی طرح کئی لاکھ کی تعداد میں مقتول ہوئے، شہر کی خندق ان لاشوں سے ہموار ہوگئی، پھردریائے دجلہ میں ان مقتولوں کے خون کی کثرت سے پانی سرخ ہوگیا، تاتاری لوگ شہر میں گھس پڑے، عورتیں اور بچے اپنے سروں پرقرآن مجید کرھ کرگھروں سے نکلے مگرتاتاریوں کی تلوار سے کوئی بھی نہ بچ سکا، ہلاکوخان نے اپنے لشکر کوقتلِ عام کا حکم دے دیا تھا، بغداد اور اس کے مضافات میں تاتاریوں نے چن چن کرلوگوں کوقتل کیا، بغداد میں صرف چند شخص جوکنویں یااسی قسم کی کسی پوشیدہ جگہ میں چھپے ہوئے رہ گئے، بچ گئے، باقی کوئی متنفس زندہ نہیں چھوڑا گیا، اگلے دن جمعہ ۹/صفر سنہ۶۵۶ھ کوہلاکوخان خلیفہ مستعصم کوہمراہ لیے ہوئے بغداد میں داخل ہوا، قصرِ خلافت میں داخل ہوکر اجلاس کیا، خلیفہ کوسامنے بلوایا اور کہا کہ ہم تمہارے مہمان ہیں، ہمارے لیے کچھ حاضر کرو، خلیفہ پراس قدر دہشت طاری تھی کہ وہ کنجیوں کوپہچان نہ سکا، آخر خزانے کے تالے توڑے گئے، دوہزار نہایت نفیس پوشاکیں، ہزار دینار اور سونے کے زیورات ہلاکو خان کے سامنے پیش کیے گئے، اس نے کہا کہ یہ چیزیں توتم نہ دیتے تب بھی ہماری ہی تھیں، یہ کہہ کراپنے درباریوں میں سب تقسیم کردیا اور کہا کہ ان خزانوں کا پتہ بتاؤ جن کا حال کسی کومعلوم نہیں کہ وہ کہاں مدفون ہیں؟ خلیفہ نے فوراً ان خزانوں کا پتہ بتایا، زمین کوکھود کردیکھا گیا توجواہرات اور اشرفیوں کی تھیلیوں سے بھرے ہوئے حوض نکلے۔ ہلاکوخان کی فوج کے ہاتھ سے بغداد اور مضافاتِ بغداد میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مقتول ہوئے اور یہ تمام زہرہ گداز نظارے خلیفہ مستعصم کودیکھنے پڑے، ہلاکوخان نے خلیفہ کوبے آب ودانہ نظربند رکھا، خلیفہ کوبھوک لگی اور کھانا مانگا توہلاکوخان نے حکم دیا کہ ایک طشت جواہرات کا بھرکرسامنے لے جاؤ اور اسے کھاؤ، خلیفہ نے کہا کہ میں ان کوکیسے کھاسکتا ہوں؟ ہلاکوخان نے کہلا بھیجا کہ جس چیز کوتم کھا نہیں سکتے، اس کواپنی اور لاکھوں مسلمانوں کی جان بچانے کے لیے کیوں نہ خرچ کیا اور سپاہیوں کوکیوں نہ دیا کہ وہ تمہاری طرف سے لڑتے اور تمہارا موروثی ملک بچاتے اور ہماری دست برد سے محفوظ رکھتے، اس کے بعد ہلاکوخان نے مستعصم کے قتل کرنے کا مشورہ اپنے اراکین سے کیا، سب نے قتل کرنے کی رائے دی؛ مگرنصیرالدین طوسی علقمی نے یہ ستم ظریفی کی کہ ہلاکوخان سے عرض کیا کہ مستعصم مسلمانوں کا خلیفہ ہے، اس کے خون سے تلوار کوآلودہ نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ نمدے میں لپیٹ کرلاتوں سے کچلوانا چاہیے؛ چنانچہ یہ کام علقمی کے سپرد ہوا اور اس نے اپنے آقا مستعصم باللہ کونمدے میں لپیٹ کراور ایک ستون سے باندھ کراس قدر لاتیں لگوائیں کہ خلیفہ کا دم نکل گیا؛ پھراس کی لاش کوزمین میں ڈال کرمغل سپاہیوں کے پاؤں سے کچلوا کرپارہ پارہ اور ریزہ ریزہ کرادیا اور خود دیکھ کرخوش ہوتا رہا کہ میں علویوں کے خون کا بدلہ لے رہا ہوں؛ غرض خلیفہ کی لاش کوگوروکفن بھی نصیب نہ ہوا اور خاندانِ عباسیہ کا کوئی شخص بھی مغلوں کے قبضہ میں زندہ نہ بچ سکا۔ اس کے بعد ہلاکوخان نے شاہی کتب خانے کی طرف توجہ کی، جس میں بے شمار کتابوں کا ذخیرہ تھا، یہ تمام کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دی گئیں، جس سے دجلہ میں ایک بندسا بندھ گیا اور بہ تدریج پانی سب کوبہاکرلے گیا، دجلہ کا پانی جواس سے پہلے مقتولین کے خون سے سرخ ہورہا تھا اب ان کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہوگیا اور عرصہ تک سیاہ رہا، تمام شاہی محلات لوٹ لینے کے بعد مسمار کردیے گئے؛ غرض یہ ایسی عظیم الشان خون ریزی اور بربادی تھی جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں مل سکتی، اسلام پریہ ایسی مصیبت آئی تھی کہ لوگوں نے اس کوقیامتِ صغریٰ کے نام سے تعبیر کیا ہے () علقمی نے جواس تمام بربادی وخون ریزی کا باعث ہوا تھا، اب کوشش کی کہ ہلاکوخان بغداد میں کسی علوی کوحاکم مقرر کرے اور اسی کوخلیفہ کا خطاب دے، ابتداء میں جب ہلاکوخان بغداد پرحملہ آور ہوا توعلقمی کوبہتری کی توقع دلادی گئی تھی اور اس کویقین تھا کہ ہلاکوخان کسی ہاشمی علوی کوخلیفہ بناکرمجھ کواس کا نائب السلطنت بنادے گا؛ لیکن ہلاکوخان نے عراق میں اپنے عامل مقرر کردیے، یہ دیکھ کرعلقمی بہت پریشان ہوا، بڑی بڑی چالیں چلا اور اپنے مقصد حاصل کرنے کے لیے ہلاکوخان کی خدمت میں گڑگڑایا اور خوشامدانہ التجائیں کیں؛ مگرہلاکوخان نے اس کواس طرح دھتکار دیا جیسے کتے کودھتکار دیتے ہیں، چند روز تک علقمی ادنی غلاموں کی طرح تاتاریوں کے ساتھ ساتھ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا رہا، آخراسی ناکامی کے صدمہ سے بہت جلد مرگیا، خلیفہ مستعصم باللہ خلفاء عباسیہ کا آخری خلیفہ تھا، جس نے بغداد میں خلافت کی سنہ۶۵۶ھ کے بعد بغداد دارالخلافہ نہ رہا، خلیفہ مستعصم کے بعد دنیا میں ساڑھے تین سال تک کوئی خلیفہ نہ تھا، اس کے بعد رجب سنہ۶۵۶ھ میں مستعصم باللہ کے چچا ابوالقاسم احمد کے ہاتھ پربیعتِ خلافت ہوئی۔