انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنازہ پر جھگڑا وفات کے بعد حضرت حسینؓ نے وصیت کے مطابق دوبارہ حضرت عائشہؓ سے اجازت مانگی ،آپ نے پھر فراخدلی کے ساتھ مرحمت فرمائی(اس موقع پر بھی حرم نبویﷺ کے دشمنوں نے ایک روایت مشہور کردی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اجازت نہیں دی اورحضرت حسنؓ کے روضہ نبویﷺ میں دفن ہونے میں مزاحم ہوئیں مگر یہ روایت بھی امیر معاویہؓ کے شرائط کی طرح حضرت عائشہؓ کو بدنام کرنے کیلئے گھڑی گئی ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں) لیکن حضرت حسنؓ کا خطرہ بالکل صحیح نکلا، مروان کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ حسنؓ کسی طرح روضۂ نبوی میں دفن نہیں کئے جاسکتے، ان لوگوں نے عثمانؓ کو تو یہاں دفن نہ ہونے دیا اورحسنؓ کو دفن کرنا چاہتے ہیں، یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا حضرت حسینؓ نے مقابلہ کرنا چاہا، مروان بھی لڑنے پر آمادہ ہوگیا اورقریب تھا کہ پھر ایک مرتبہ مدینہ کی زمین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار بن جائے کہ اتنے میں مشہور صحابی حضرت ابوہریرہؓ پہنچ گئے اورچلائے کہ یہ کیا ظلم ہے کہ ابن رسول اللہ ﷺ کو اس کے نانا کے پہلو میں دفن کرنے سے روکا جاتا ہے،پھر حسینؓ سے کہا کہ اس کے لئے کشت وخون سےکیا فائدہ،حسنؓ کی وصیت بھول گئے کہ اگر خونریزی کا خطرہ ہو تو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا اس پر حضرت حسینؓ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اوربنی امیہ اوربنی ہاشم میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی اس کے بعد سعید بن العاصؓ عامل مدینہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور لاش مبارک جنت البیقیع میں حضرت فاطمہ زہراؓ کے پہلو میں سپرد خاک کی گئی۔ (استیعاب:۱/۱۴۵ واسد الغابہ:۲/۱۵) حضرت حسنؓ کا روضہ نبویﷺ کے بجائے بقیع کے گور غریباں میں دفن کیا جانا بھی آپ کے روحانی تصرف کا نتیجہ تھا کہ جس پیکر صلح واشتی نے زندگی میں مسلمانوں کے خون کی قیمت پر دنیاوی جاہ و حشم حاصل کرنا پسند نہ کیا اورخونریزی سے بچنے کے لئے سلطنت وحکومت جیسی چیز کو ٹھکراکر عزلت نشینی کی زندگی اختیار کی اس کے جسدِ خاکی نے مرنے کے بعد بھی یہ کرشمہ دکھایا کہ روضۂ نبویﷺ کے مقابلہ میں بقیع کے گور غریباں میں دفن ہوا ،لیکن حرم نبویﷺ میں مسلمانوں کا خون نہ گرنے دیا ،ورنہ اس قیمت پر جدامجد کے پہلو میں جگہ ملنی بہت آسان تھی۔