انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وجودخداوندی بہرِحال ہمارا خیال ہے کہ اسی وجہ سے وجودِباری تعالیٰ کو زیادہ قابلِ بحث نہیں سمجھاگیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن پاک نے اس مسئلہ کو بالکل بے دلیل چھوڑدیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس مسئلہ کے بالکل فطری اور بدیہی ہونے کی وجہ سے اس پر ایسی توجہ نہیں دی جیسی کہ توحیدپر یا صفاتِ الٰہی پر دی گئی ہے؛ بلکہ سوچنے والوں کے لیے معمولی رہنمائی اور کچھ اشارے کردینا کافی سمجھا گیا ہے مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے: "إِنَّ اللہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ذَلِکُمُ اللہُ فَأَنَّی تُؤْفَکُون"۔ (الأنعام:۹۵) ترجمہ:بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کوبے جان سے نکال لاتا ہے اور وہ بیجان کو جاندارسے نکالنے والا ہے، اللہ یہ ہے سوتم کہاں الٹے چلے جارہے ہو۔ (ترجمہ حضرت تھانویؒ) مطلب یہ ہے کہ انسان دیکھتے رہتے ہیں اور تجربہ کرتے رہتے ہیں کہ غلہ کے کسی دانہ کو یا کسی پھل کی گٹھلی کو زمین میں دبادیاجاتا ہے؛ پھر وہ دانہ اور گٹھلی اندر پھٹتے ہیں اور ان میں سے ایک نہایت نرم ونازک ریشہ نکلتا ہے اور وہ سطح زمین کو چیرتاہوا اوپر نکل آتا ہے، تو غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس دانہ کو یا گٹھلی کو زمین کے اندر کس نے ایک مکمل ضابطہ سے کھولا اور کس نے اس بے جان اور سوکھے ہوئے دانے یا گٹھلی میں سے جاندار ریشہ نکالا اور وہ ریشہ جو ریشم کے دھاگہ سے بھی زیادہ نرم ہوتا ہے، کس کی طاقت اور کا رفرمائی سے زمین کو چیرتاہوا اوپر نکل آیا؟ قرآن پاک کی اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ بس سمجھ لوکہ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے اور اسی کی کارفرمائی سے ہوا اور یہ سب کچھ اللہ ہی نے کیا۔ آگے فرمایا:اسی طرح تم دیکھتے ہوکہ ایک بالکل بے جان چیز میں سے جاندار چیز پیدا ہوجاتی ہے مثلاً:بے جان انڈے میں سے بولنے چہکنے والی اور آسمان کی فضامیں اڑنے والی چڑیا نکل آتی ہے اور بعض جاندار چیزیں بجائے جاندار بچہ جننے کے، بے جان انڈادیتی ہیں۔ قرآن مجید انسان کے اس روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ کو اس کے سامنے رکھ کر کہتا ہے کہ یہ سب کرشمے اللہ ہی کی قدرت کے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہی ہے؛ لہٰذا جولوگ قدرت باری تعالیٰ کی ان کھلی کارفرمائیوں کو دیکھنے کے باوجود اللہ کو نہیں جانتے اور نہیں پہچانتے، ان کی آنکھوںپر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ان کی عقلیں ماری گئی ہیں۔ (دین وشریعت:۳۱، ۳۲، مصنف:مولانا محمدمنظور نعمانی رحمہ اللہ)