انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** شہادت ماں کے اس فرمان پر انہوں نے جان کی حفاظت کا یہ آخری سہارا بھی اتار دیا اورکپڑے درست کرکے رجز پڑہتے ہوئے رزمگاہ پہنچے اورآتے ہی اس زور کا حملہ کیا کہ بہت سے شامی خاک و خون میں تڑپ گئے ؛لیکن شامیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لئے ابن زبیرؓ کے ساتھی ان کے جوابی حملہ کی تاب نہ لاسکے اوران کے ریلے سے منتشر ہوگئے، ایک خیر خواہ نے ایک محفوظ مقام پر چلے جانے کا مشورہ دیا، فرمایا ایسی حالت میں مجھ سے برا کون ہوگا کہ پہلے اپنے ساتھیوں کو قتل ہونے کے لئے سامنے کردیا اور ان کے قتل ہونے کے بعد میں ان کی جیسی موت سے بھاگ نکلوں۔ اب ابن زبیرؓ کی قوت بہت کمزور پڑ گئی تھی، اس لئے شامی برابر بڑھتے آرہے تھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے تمام پھاٹکوں پر ان کا ہجوم ہوگیا،لیکن ابن زبیرؓ اس حالت میں بھی شیر کی طرح چاروں طرف سے حملہ آور ہوتے اور جدھر رخ کردیتے تھے شامی کائی کی طرح چھٹ جاتے تھے، حجاج نے جب دیکھا کہ کوئی شامی ان کے پاس جانے کی ہمت نہیں کرتا تو خود سواری سے اتر پڑا اوراپنی فوج کو للکار کر ابن زبیر کے علمبردار کی طرف بڑھنے کا حکم دیا، لیکن ابن زبیرؓ نے بڑھ کر اس بڑہتے ہوئے ہجوم کو بھی منتشر کردیا اورنماز پڑھنے کے لئے مقام ابراہیم پر چلے گئے شامیوں نے موقع پاکر ان کے علمبردار کو قتل کرکے علم چھین لیا، ابن زبیرؓ نماز پڑھ کر لوٹے تو بڑی دیر تک بغیر علم کے لڑتے رہے۔ (یہ تمام حالات ملحضا ابن اثیر:۴/۲۸۶،۲۸۹) عین اس حالت میں ایک شامی نے ایسا پتھر مارا کہ ابن زبیرؓ کا سر کھل گیا اور چہرے سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا داڑھی خون سے تر ہوگئی، اس خونبانہ فشانی پر ابن زبیرؓ نے یہ شجاعانہ شعر پڑھا۔ والنسا علی الاعقاب تدمی کلومنا ولکن علی اقد امنا تقطرالدماء یعنی ہم وہ نہیں کہ پیٹھ پھیرنے کی وجہ سے جن کی اینڈیوں پر خون گرتا ہے؛بلکہ سینہ سپر ہونے کی وجہ سے ہمارے قدموں پر خون ٹپکتا ہے۔ یہ رجز پڑہتے جاتے تھے اور پورے شجاعت و دلیری سے لڑتے جاتے تھے،لیکن زخموں سے چور ہوچکے تھے ساتھیوں کی ہمت پست ہوچکی تھی، شامیوں کا انبوہ کثیر مقابل میں تھا اس لئے آخر میں انہوں نے ہر طرف سے یورش کرکے قتل کردیا اور جمادی الثانی ۷۳ ھ میں قریش کا یہ یگانہ بہادر، حواری رسول ﷺ کا لخت جگر اور ذات النطاقین کا نور نظر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔ (طبری:۸/۸۵۰، ومستدرک تذکرہ ابن زبیر)