انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام حسنؓ پر کفر کا فتویٰ اس تقریر کو سُن کر خوارج اورمنافقین نے فوراً تمام لشکر میں یہ بات مشہور کردی کہ امام حسنؓ معاویہؓ سے صلح کرنا چاہتے ہیں،پھر ساتھ ہی حضرت امام حسنؓ پر کفر کا فتویٰ لگادیا، معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگانے کی رسم منافقوں اورسبائیوں کی ایجاد کردہ رسم ہے،انہیں لوگوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا،کسی قدر حیرت کا مقام ہے کہ آج ہمارے زمانے کے بڑے بڑے اعلم العلماء اور افضل الفضلاء کہلانے والے جبہّ پوش مفتی منافقوں اورمسلم نما یہودیوں کی اس پلید سنت کے زندہ رکھنے اور امّتِ محمدیہ کے شیرازہ کو اپنی تکفیر بازی وفتویٰ گری کے خنجر سے پارہ پارہ اورپریشان کرنے میں پوری مستعدی و سرگرمی کو کام میں لارہے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون غرض اس کفر پر فتوے کا حضرت امام حسنؓ کے لشکر پر یہ اثر ہوا کہ تمام لشکر میں ہلچل مچ گئی، کوئی کہتا تھا کہ امام حسنؓ کافر ہوگئے،کوئی کہتا تھا کہ کافر نہیں ہوئے،آخر کافر کہنے والوں کا زور ہوگیا اورانہوں نے اپنے مخالف خیال کے لوگوں پر زیادتی اورماردھاڑشروع کردی، پھر بہت سے لوگ کافر کہتے ہوئے حضرت امام حسنؓ کے خیمے میں گھس آئے اورہرطرف سے آپؓ کا لباس پکڑ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا،یہاں تک کہ آپ کے جسم پر تمام لباس پارہ پارہ ہوگیا،آپؓ کے کاندھے پر سے چادر کھینچ کر لے گئے اور ہر چیز خیمے کی لوٹ لی،یہ حال دیکھ کر حضرت امام حسنؓ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قوم زبیعہ وہمدان کو آواز دی یہ دونوں قبیلے آپ کی حمایت وحفاظت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور بد معاشوں کو آپؓ کے پاس سے دفع کرنے میں کامیاب ہوئے،کچھ دیر کے بعد وہ شور وشر جو لشکر میں برپا تھا فرو ہوا،وہاں سے آپ شہر مدائن کی طرف روانہ ہوئے،راستے میں ایک خارجی نے جس کو جراح بن قبیضہ کہتے تھے موقع پاکر آپؓ کے ایک نیزہ مارا جس سے آپ کی ران زخمی ہوئی،آپ کو ایک چارپائی یا سر پر اُٹھا کر مدائن کے قصِر ابیض میں لائے اور وہیں آپ مقیم ہوئے، عبداللہ بن حنظل اور عبد بن ظیبان نے جراح بن قبیضہ خارجی کو قتل کیا، قصِر ابیض میں آپ کے زخم کا علاج جراحوں نے کیا اور جلد یہ زخم اچھا ہوگیا،قیس بن سعد جو بارہ ہزار کا لشکر لے کر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ ہوئے تھے،مقام انبار میں مقیم تھے کہ حضرت امیر معاویہؓ نے آکر ان کا محاصرہ کرلیا اور عبداللہ بن عامر کو تحریکِ صلح کے لئے مدائن کی طرف بطور مقدمۃ الجیش روانہ کیا،ادھر مدائن میں پہنچ کر اوراپنے لشکر والوں کی یہ بد تمیزیاں دیکھ کر حضرت امام حسنؓ پہلے ہی صلح کا ارادہ کرکے حضرت امیر معاویہؓ کے پاس ایک قاصد یعنی عبداللہ بن حارث بن نوفل کو جو امیر معاویہؓ کے بھانجے تھے معہ درخواست صلح روانہ کرچکے تھے۔ عبداللہ بن عامر کو مدائن کے قریب پہنچا ہوا سُن کر حضرت امام حسنؓ مقابلہ کے لئے معہ لشکر مدائن سے نکلے،عبداللہ بن عامر نے اپنے مقابلہ پر لشکر کو آتے ہوئے دیکھ کر اور قریب پہنچ کر اہل عراق کو مخاطب کرکے کہا کہ میں لڑنے کے لئے نہیں آیا ہوں،میں امیر معاویہؓ کا مقدمۃ الجیش ہوں اور امیر معاویہؓ انبار میں بڑے لشکر کے ساتھ مقیم ہیں، تم لوگ امام حسنؓ کی خدمت میں میرا سلام پہنچاؤ اور عرض کرو کہ عبداللہ آپ کو خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ لڑائی سے ہاتھ روکوتا کہ ہلاکت سے بچ جائیں، جب حضرت امام حسنؓ نے یہ بات سُنی تو مدائن میں واپس چلے آئے اور عبداللہ کے پاس پیغام بھیجا کہ امیر معاویہؓ میری چند شرطیں منظور کرلیں جن میں سب سے مقدم یہ ہے کہ امیر معاویہؓ کتاب وسنت پر عامل رہنے اورسابقہ مخالفتوں کو فراموش کرکے کسی کی جان و مال سے تعرض نہ کرنے اورہمارے طرفداروں کو جان کی امان دینے کا وعدہ کرلیں،الصلح خیر ،عبداللہ بن عامر،یہ سن کر فوراً حضرت امیر معاویہؓ کے پاس واپس گئے اورکہا کہ چند شرطوں کے ساتھ حضرت حسنؓ تفویض خلافت پر آمادہ ہیں،حضرت امیر معاویہؓ نےپوچھا: وہ شرطیں کیا ہیں؟ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ جب تم فوت ہوجاؤ تو تمہارے بعد خلافت حضرت امام حسنؓ کو ملے،دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم زندہ رہو،ہرسال پانچ لاکھ درم سالانہ بیت المال سے امام حسنؓ کے پاس بھیجتے رہو،تیسری شرط یہ ہے کہ علاقہ اہواز وفارس کا خراج امام حسنؓ کو ملا کرے۔ یہ تینوں شرطیں عبداللہ بن عامر نے بطور خود حضرت امام حسنؓ کی طرف سے پیش کرکے پھر وہ شرطیں سُنائیں جو حضرت امام حسنؓ نے عبداللہ بن عامر سے کہلا کر بھجوائی تھیں،حضرت امیر معاویہؓ نے کہا کہ مجھ کو یہ تمام شرطیں منظور ہیں اور حضرت امام حسنؓ ان کے علاوہ بھی کوئی اور شرط پیش کریں گے تو وہ بھی مجھ کو منظور ہے،کیونکہ اُن کی نیت نیک معلوم ہوتی ہے اور مسلمانوں میں صلح وآشتی کے خواہاں نظر آتے ہیں، یہ کہہ کر حضرت امیر معاویہؓ نے ایک سفید کاغذ پر اپنی مُہر ودستخط ثبت کرکے عبداللہ بن عامر کو دیا اور کہا کہ یہ کاغذ حضرت امام حسنؓ کے پاس لے جاؤ اوراُن سے کہو کہ جو جو شرطیں آپ چاہیں اس کاغذ پر لکھ لیں، میں سب کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوں،حضرت امام حسینؓ اورعبداللہ بن جعفرؓ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت امام حسنؓ صلح پر آمادہ ہیں تو وہ اُن کے پاس آئے اور اس ارادے سے باصرار بازر کھنا چاہا،لیکن حضرت امام حسنؓ نے اُن کی رائے کو پسند نہ فرمایا،وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ سے اہلِ کوفہ اوراہلِ عراق کو دیکھ رہے تھے، دوسری طرف امیرِ معاویہؓ کے انتظام ملکی اور نظامِ حکومت کی مضبوطی بھی اُن کے پیش نظر تھی،لہذا صلح کے ارادے پر قائم رہے۔