انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** قدیر جب ہم کہتے ہیں کہ"فلاں قادر ہوا"تو ہم اس کا مطلب یہی سمجھتے ہیں کہ فلاں وہ کام کرسکتا ہے، کوئی خارجی سبب(چیز) اس کو روک نہیں سکتا البتہ وہ خود ہی ارادہ بدل دے اور نہ کرے تو یہ دوسری بات ہے۔ اسی طرح ایسے ضدین (ایسی دوچیزیں جو ایک دوسرے کے مقابل ہوں) جب دونوں قدرت میں ہوں، مثلاکسی چیز کا کھانا اور نہ کھانا، اس وقت آدمی ان دونوں میں سے ایک پہلو کو اختیار کرے مثلا کھالے تو بھی دوسرا پہلو قدرت میں رہتا ہے، ایک پہلو کو ترجیح دینے سے اس کی ضد قدرت سے خارج نہیں ہوجاتی، جس طرح پہلے دونوں پہلو قدرت میں تھے اسی طرح اب بھی دوسرا پہلو قدرت میں ہے اور ایک پہلو کو اختیار کرنا اور دوسرے پہلو کو اختیار نہ کرنا کسی مصلحت سے ہوتا ہے اس مفہوم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ ہر کام کرسکتے ہیں کوئی ان کو روکنے والا نہیں اور وہ جو دو قدرت والی چیزوں میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں تو وہ اپنی مہربانی سے ایسا کرتے ہیں اور ان کا اپنا ارادہ اور فیصلہ اس کا تقاضا کرنے والا ہوتا ہے، مثلا انہوں نے اپنے حبیب کو سب پیغمبروں کے آخر میں بھیجا؛ جبکہ وہ سب سے پہلے بھی اور درمیان میں بھی بھیج سکتے تھے، تو یہ ترجیح ان کے فضل اور ان کے چاہنے کی وجہ سے ہے، ایسا نہیں ہے کہ دوسرا پہلو ان کے اختیار میں نہیں تھا، یا اب نہیں رہا، پہلے بھی دونوں امر قدرت میں تھے اور اب بھی ہیں جب اللہ کی یہ شان ہے توضروری ہے کہ ان کو قادر مانا جائے لہٰذا وہ "قدیر"(قدرت والے) ہیں اور اس کو صفت قدرت حاصل ہے، ہرچیز کی اس کو قدرت ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے: " اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ"۔ (البقرۃ:۱۴۸) بلاشبہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ،باب الایمان بصفات اللہ:۱/۱۳۵) اسلام کے علاوہ اکثر مذاہب اپنے عقائد میں اللہ تعالی کو عاجز سمجھتے ہیں چنانچہ حکمائے یونان نے اس کو اس کی مخلوقات میں تصرف سے عاجز سمجھ رکھا ہے کہ آسمانوں کا فنا کرنا، یا عقول عشرہ(دس عقلیں یعنی فرشتوں) کے واسطے کے بغیر عالم پیدا کرنا،وغیرہ اس سے محال سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے امور کی اس کو قدرت نہیں ہے۔ نصاری(عیسائی) کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو یہود نےپھانسی دیدی اور نہایت ذلت سے مارا حالانکہ عیسی علیہ السلام اللہ تعالی سے بہت آہ وزاری کے ساتھ فریاد کرتے رہے کہ مجھے بچالے اور ان کے ہاتھ سے چھٹکارا دلا، دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ، روح القدس اور اللہ تعالی یہ تین مل کر ایک ہیں، لہٰذا جب عیسیٰ عینِ ذاتِ حق یا جزوِ ذاتِ حق ہے تو ذاتِ حق اپنے آپ کو نہ بچاسکا اور یہود کے ہاتھوں قتل کردیا گیا، تَعَالیٰ اللہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ یہود کہتے ہیں کہ اللہ تعالی پوری رات یعقوب سے کشتی لڑتا رہا اور اندر جانے سے یعقوب روکتے رہے، ہندو کہتے ہیں کہ اوتار(فرشتے وغیرہ) میں اللہ تعالی حلول کرتا ہے(داخل ہوتاہے) اور اوتار خود اللہ ہوتا ہے حالانکہ رام چندر اوتار کی بیوی کولنکا کا راجہ راون زبردستی چھین کر لے گیا تھا پھر رام اس کے عشق میں پریشان گھومتا رہا تلاش کرتا رہا لیکن کوئی پتہ نہیں چلا، بلآخر جب معلوم ہوا تو راون سے لڑنا چاہا لیکن ہنومان وغیرہ لوگوں کی مدد کے بغیر شکست نہ دے سکا(معاذ اللہ)۔ گویا ان کے اعتقاد میں اللہ ایک عورت کے عشق میں مبتلا رہا اور اس کو اس کی عورت کا حال معلوم نہ ہوسکا پھر راون کو، بغیر مددلیے مارنہ سکا۔ (عقائد الاسلام:۲۱، مصنف مولانا عبدالحق حقانی رحمہ اللہ)