انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مذہبی اثرات اُوپر ذکر آچکا ہے کہ اہلِ عرب یہود کوعلمی اور مذہبی حیثیت سے ممتاز سمجھتے تھے اور بہت سے اُمور میں ان کی اقتداء بھی کرتے تھے، یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ ادب وشاعری کے ذریعہ ان کی بہت سی مذہبی اصطلاحیں، الفاظ اور تصوراتِ عربی زبان میں داخل ہوگئے تھے، اس سلسلہ میں حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے ظہورِ اسلام سے قبل کا ایک واقعہ جوقابل ذکر ہے، بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: میرے پڑوس میں قبیلہ بنواشہل کا ایک یہودی رہتا تھا، اس نے ایک دن تمام بنواشہل کوجمع کیا اور ان کے سامنے قیامت، بعث بعدالموت، حساب کتاب، میزان، جنت اور دوزخ وغیرہ کے متعلق ایک وعظ کہا اور آخر میں کہا کہ یہ اہلِ شرک اور بت پرست لوگ موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے قائل نہیں ہیں، اس پرحاضری نے کہا کہ تم کیا بک رہے ہو، کیا مرنے کے بعد ہم لوگ پھرزندہ کیے جائیں گے اور ہمارے اعمال کا محاسبہ ہوگا؟ یہودی نے پھرمجمع کواس کے بارے میں سمجھایا، مجمع نے اس سے دوبارہ مطالبہ کیا کہ وہ اس کی کوئی دلیل اور نشانی بتائے، اس نے کہا کہ اس سرزمین سے ایک نبی پیدا ہوں گے اور وہ اس کے بارے میں بتائیں گے۔ (ابن ہشام، بحوالہ تاریخ الیہود) قرآن مجید سے پتہ چلتا ہ کہ اہلِ عرب عام طور پرآحرت اور بعث بعدالموت کے قائل نہیں تھے، اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ اس کے قائل تونہیں تھے؛ لیکن یہود کے ذریعہ ان سے آگاہ ضرور ہوگئے تھے، سیر کی کتابوں سے پتہ چلتا ہےکہ یہود تین وقت کی نماز بھی پڑھتے تھے (ابن ہشام، بحوالہ تاریخ الیہود) ابن الہیبان یہودی عالم جس کا تذکرہ اس کتاب میں آیا ہے، اس کے متعلق کتابوں میں ہے کہ وہ پاچن وقت کی نماز پڑھتا تھا۔ (تاریخ الیہود:۸۷) نماز کے اعلان کے لیے وہ بوق (سینگ کی طرح کی کوئی چیز ہوتی ہے) بجاتے تھے، وہ روزے بھی رکھتے تھے۔ (عام کتب حدیث) ظاہر ہے کہ یہود کے ان مذہبی مراسم کوعرب اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہوں گے، ان میں اس کا چرچا رہتا ہوگا اور اس کا اثر بھی ان پرپڑتا رہا ہوگا، اس کا ثبوت یہ ہے کہ جہاں جتنے زیادہ یہود آباد تھے وہاں اسی قدر ان کے اثرات بھی عربوں پرنمایاں تھے، مثلاً مدینہ کے عرب یہود کے رسم ورواج اور مذہبی اُمور سے سب سے زیادہ واقف اور متاثر نظر آتے ہیں اور غالباً اسی تاثر کا نتیجہ تھا کہ انصار نے بہت آسانی سے اسلام قبول کرلیا، اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کی حقانیت سے وہ پہلے سے آگاہ ہوچکے تھے، سوال یہ ہے کہ عقائد کے لحاظ سے اسلام سے اس درجہ قریب ہونے کے باوجود خود یہودیوں نے اسلام کے قبول کرنے میں کیوں تاخیر کی او رکیوں لیت ولعل سے کام لیا، واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہود کا صالح طبقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اسلام کی حقانیت کا قائل اور اس کی قبولیت کی طرف مائل ضرور تھا؛ لیکن ان کے لیے کچھ موانع تھے، جن کی وجہ سے وہ اس سعادتِ ابدی سے محروم رہے؛ پھربھی ان میں سے جوصاحب ہمت تھے اور ان موانع کا مقابلہ ڈٹ کرکرسکتے تھے، وہ قبولِ اسلام سے باز بھی نہیں رہے، تفصیل آگے ائے گی۔