انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** وفد حمیر(رمضان۹ہجری) قبیلہ حمیر کے ایک شخص سے جنھوں نے رسول اﷲ ﷺ کا زمانہ پایا اور بطور وفد آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے ،مروی ہے کہ مالک بن مرارۃ الرہادی قاصد شاہانِ حمیر ان لوگوں کے خطوط رسول اﷲ ﷺ کے پاس لائے ، یہ واقعہ رمضان ۹ھ کا ہے، آپﷺ نے بلالؓ کو حکم دیا کہ ان کو ٹھہرائیں اور مدارات اور ضیافت کریں ،رسول اﷲ ﷺ نے حارث بن عبدالکلال و نعیم بن عبدالکلال و نعمان سردارنِ ذی رُوعین و معافر و ہمدان کے نام تحریر فرمایا کہ: " اما بعد ! میں اسی اﷲ کی حمد کرتاہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تمہارے قاصد ملک روم سے واپسی کے وقت ہمارے پاس پہنچے ، انھوں نے تمہارا پیا م اور تمہارے یہاں کی خبریں ہمیں پہنچائیں، تمہارے اسلام اور قتلِ مشرکین کی خبر دی ، بس اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں اپنی ہدایت سے سرفراز کیا ہے بشرط یہ کہ تم لوگ نیکی کرو، اﷲ و رسول کی اطاعت کرو، نماز کو قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور غنیمت میں سے اﷲ کا خُمس اس کے نبی کا خُمس اور منتخب حصہ جو صدقہ و زکوٰۃ مومنین پر فرض کیا گیا ہے ادا کرو" (ابن سعد)۔ حج اسلام اور اعلان برأت (ذی الحجہ ۹ھ) (علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں لکھا ہے کہ حج ۹ یا ۱۰ ہجری میں فرض ہوا) غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد مسلمانوں پر حج فرض ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی: (ترجمہ)" اﷲ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا (فرض)ہے(یعنی اس شخص پر) جو وہاں تک پہنچنے کا مقدور رکھے" (سورہ آل عمران : ۹۷) غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد حضور اکرم ﷺ رمضان ، شوال اور ذی قعدہ مدینہ ہی میں رہے، اس دوران اطراف ملک سے وفود برائے اظہار و قبول اسلام آنا شروع ہوئے، ملک میں حال حال تک بعض قبیلے کفر سے وابستہ تھے، کفار ابھی تک حرمت والے مہینوں( رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ ، محرم ) میں عمرہ و حج کے لئے آتے، یہ لوگ کفریہ عقائد کی وجہ سے نجس تھے، جب تک عرب کے چپہ چپہ پر ہر فرد کے دل میں کلمۃاﷲ کا نفوذ نہ ہو آنحضرت ﷺ کا مدینہ میں قیام ضروری تھا، پھر جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اذن نہ ہو آنحضرت ﷺ حج کا قصد نہ فرماسکتے تھے، اسی لئے آپﷺ نے تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ سے حج کے لئے روانہ فرمایا، حضرت ابوبکر ؓ صدیق امیر الحج مقرر ہوئے ، قربانی کے لئے بیس اونٹ ساتھ تھے۔ بعثت نبویﷺ سے لے کر اب تک اور پہلے ہی کی طرح مشرکین ہمیشہ سے بیت اﷲ کا حج و زیارت کرتے چلے آرہے تھے، اس سال بھی انھیں حسب معمول آنا ہی تھاکیونکہ رسول اﷲ ﷺ اور مشرکین کے درمیان وقت کی تحدید پر کوئی معاہدہ نہ تھا جس کی رو سے ان لوگوں پر نہ آنے کی پابندی عائد ہوسکے، پھر وہی حرمت والے چار مہینوں میں سفر کی سہولتیں جن میں کسی رہ گذر کو رہزن کا خطرہ نہ تھا ، دوسرے معنوں میں حج بیت اﷲ کے لئے آنے کی ہر عقیدہ و عمل کے افراد کو اجازت تھی، یہی وجہ ہے کہ فتح مکّہ کے بعد جب رسول اﷲ ﷺ نے حضر ت عتاب ؓ بن اسید کو مکّہ معظمہ کا امیر مقرر فرمایا باوجود یہ کہ کعبہ کے باہر اور اندر اور شہر و نواح کے تمام بت اور صنم کدہ مسمار ہوچکے تھے لیکن غیر مسلم اشخاص مناسک حج اپنے پرانے طریق پر ہی ادا کرتے جن پر رسول اﷲ ﷺ کے نائب کی طرف سے کوئی پابندی نہ تھی؛ لیکن بیت اﷲ میں اہلِ اسلام اور بت پرستوں کا ایسا اجتماع جس میں مسلمان اپنے طریق پر مناسک ادا کریں اور مشرکین بت پرستانہ رسوم کے مطابق ناقابل برداشت او ر فہم و فراست سے بعید تھا، ضروری تھا کہ جس طرح مشرکین کے خداؤں کو کعبہ سے نکال دیا گیا اسی طرح ان بتوں کے پرستاروں کو بھی یہاں آنے سے روک دیا جائے، موسم حج میں ایک مہینہ رہ گیا تھا، مشرکین نزدیک و دور سے چل کر حرمِ کعبہ میں پہنچ چکے تھے ، مشیت خداوندی نے فیصلہ کر ہی لیا کہ اس سال (۹ ہجری) عوام و خواص کے اجتماع میں اعلان کردیاجائے کہ شرک و ایمان یکجا نہیں رہ سکتے، چنانچہ سورہ برأت اس معاملہ میں حرف آخر کے طور پر نازل ہوئی جس میں مشرکین سے کئے گئے عہد و پیمان کو برابری کی بنیاد پر ختم کرنے کا حکم دیا گیا، اس حکم کے آجانے کے بعد حضور اکرمﷺ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو روانہ فرمایاتاکہ وہ آپﷺ کی جانب سے اس کا اعلان کردیں ، ایسا اس لئے کرنا پڑا کہ خون اور مال کے عہد وپیمان کے سلسلہ میں عرب کا یہی دستور تھا کہ آدمی یا تو خود اعلان کرے یا اپنے خاندان کے کسی فرد سے اعلان کرائے، خاندان سے باہر کے کسی آدمی کا کیا ہوا اعلان تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ صدیق سے حضرت علیؓ کی ملاقات عرج یا وادیٔ ضحبان میں ہوئی، حضرت ابوبکرؓ نے دریافت کیا امیر بن آئے ہو یا مامور؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا! مامور ہوں، پھر دونوں آگے بڑھے، حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کو حج کرایا، قربانی کے دن حضرت علیؓ نے جمرہ کے پاس کھڑے ہوکر لوگوں میں اعلان کیا جس کا حکم رسول اﷲ ﷺ نے دیاتھااور سورۂ برأت کی آیات پڑھ کا سنائیں، اس طرح تمام عہد والوں کا عہد ختم کردیااور انھیں چار مہینے کی مہلت دی، اسی طرح جن لوگوں کے ساتھ کوئی عہد و پیمان نہیں تھا انھیں بھی چار مہینوں کی مہلت دی، البتہ جن مشرکین نے مسلمانوں سے عہد نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی تھی اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد کی تھی ان کا عہد ان کی طئے کردہ مدت تک برقرار رکھا، اس کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت بھیج کر یہ اعلان عام کروایاکہ آئندہ سے کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گااور نہ کوئی ننگا آدمی بیت اﷲ کا طواف کرسکے گا،یہ اعلان جزیرۃ العرب سے بت پرستی کے خاتمہ کا اعلان تھا یعنی اس سال کے بعد بت پرستی کے لئے آمدروفت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ قرآن نے اس حج کو حجِ اکبر کہا ہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ رسم حج اصل ابراہیمی سنت میں جلوہ گر ہوئی، اس حج کا مقصد یہ تھا کہ خانۂ خلیل میں عہد جاہلیت کے اختتام اور حکومت اسلام کی ابتدا کی جائے ، مناسک و رسوم حج کی عام طور پر تعلیم دی جائے ، زمانہ جاہلیت کے رسوم و عادات کا ابطال کیا جائے ( سیرت النبی - شبلی نعمانی) سورہ ٔ برات (توبہ ) میں فرمایاگیا: (ترجمہ) " اﷲ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں (کے عہد) سے بیزاری ہے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھاتو (مشرکو) تم اس سرزمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم اﷲ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ بھی (یاد رکھو) کہ اﷲ (حق سے) انکار کرنے والوں کو ذلیل کرنے والا ہے" ( سورۂ توبہ : ۱ ، ۲) پھر فرمایاگیا: (ترجمہ) " البتہ جن مشرکین کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو پھر انھوں نے (معاہدہ کی تکمیل میں) کوئی کمی نہ کی ہو نہ تمھارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک ان کے ساتھ عہد کیا ہو اسے پورا کرو بلاشبہ اﷲ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے" (سورۂ توبہ : ۴) جزیہ کے بارے میں احکام نازل ہوئے: اس سلسلہ میں سورہ توبہ کی آیت ۲۹ نازل ہوئی : (ترجمہ ) " اہل کتاب جو نہ اﷲ پر (پورا پورا)ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پریقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کواللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ دین حق(اسلام) کو قبول کرتے ہیں تو (مسلمانو) تم ان سے بھی لڑویہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں" ( سورۂ توبہ : ۲۹ ) قبیلہ غامد کی ایک عورت نے بد کاری کا اقرار کیا ، اسے بچہ کی ولادت اور دودھ چھوڑنے کے بعد رجم کیا گیا۔