انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اصحاب الاعراف اعراف کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ۔ (الحدید:۱۳) ترجمہ:پس ان منافقوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک دیوار قائم کردی جائے گی اس کا ایک دروازہ بھی ہوگا، جس کے اندر کی طرف رحمت (جنت) ہوگی اور باہر کی طرف عذاب (یعنی دوزخ ہوگی)۔ اس آیت میں وہ حصار جواہلِ جنت اور اہلِ دوزخ کے درمیان حائل کیا جائے گا اس کولفظ سور سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ لفظ دراصل شہرپناہ کے لیے بولا جاتا ہے جوبڑے شہروں کے گرد غنیم سے حفاظت کے لیے بڑی مضبوطی ومستحکم چوڑی دیوار بنائی جاتی ہے؛ ایسی دیواروں میں فوج کے حفاظتی دستوں کی کمین گاہیں بھی بنی ہوتی ہیں جوحملہ آوروں سے باخبر رہتے ہیں، سورۂ اعراف کی آیت میں ہے: وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ۔ (الاعراف:۴۶) ان دونوں فریق یعنی اہلِ دوزخ کے درمیان آڑ یعنی دیوار ہوگی اور اس دیوار کا یااس کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے اور اس پرسے جنتی اور دوزخی سب نظر آئیں گے، ابن جریر اور دوسرے ائمہ تفسیر کی تحریر کےمطابق اس آیت میں لفظِ حجاب سے وہی حصار مراد ہے جس کوسورۂ حدید کی آیت میں لفظ سور سے تعبیر کیا گیا ہے، اس حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے؛ کیونکہ اعراف عرف کی جمع ہے اور عرف ہرچیز کے اوپر والے حصہ کوکہا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ دور سے معروف وممتاز ہوتا ہے، اہلِ اعراف اسی پرہوں گے اور یہ بہت چوڑی ہوگی یہ یہاں سے جنت اور جہنم والوں کودیکھ سکیں گے اور گفتگو اور سوال وجواب بھی کریں گے۔ (معارف القرآن) اہلِ اعراف کے احوال: اعراف کے اوپربہت سے آدمی ہوں گے وہ لوگ اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ میں سے ہرایک کوعلاوہ جنت اور دوزح کے اندر ہونے کی علامت ان کے قیافہ سے بھی پہچانیں گے قیافہ یہ ہوگا کہ اہلِ جنت کے چہروں پرنورانیت اور اہلِ دوزخ کے چہروں پرظلمت اور کدورت ہوگی جیسا کہ دوسری آیت میں ہے: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌo ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ (عبس:۳۸،۳۹) اور اہلِ اعراف اہلِ جنت کوپکار کرکہیں گے السلام علیکم ابھی یہ اعراف میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کے اُمیدوار ہوں گے؛ چنانچہ حدیثوں میں آیا ہے کہ ان کی امیدپوری کردی جائے گی اور جنت میں جانے کا حکم ہوجائے گا اور جب ان کی نگاہیں اہلِ دوزخ کی طرف جاپڑیں گی اس وقت ہول کھاکر کہیں گے، اے ہمارے رب! ہم کوان ظالم لوگوں کے ساتھ عذاب میں شامل نہ کیجئے او راہلِ اعراف دوزخیوں میں سے بہت سے آدمیوں کوجن کووہ ان کے قیافہ سے پہچانیں گے کہ یہ کافر ہیں پکاریں گے اور کہیں گے کہ تمہاری جماعت اور تمہارا اپنے کوبڑا سمجھنا اور انبیاء علیہم السلام کا اتباع نہ کرنا تمہارے کس کام نہ آیا اور تم اسی تکبر کی وجہ سے مسلمانوں کوحقیرسمجھ کریہ بھی کہا کرتے تھے کہ یہ بے چارے کیا مستحق فضل وکرم ہوتے توان مسلمانوں کواب دیکھو کیا یہ جوجنت میں عیش کررہے ہیں وہی مسلمان ہیں جن کی نسبت تم قسمیں کھا کھاکر کہا کرتے تھے کہ ان پراللہ تعالیٰ اپنی رحمت نہ کرلے گا توان پرتواتنی بڑی رحمت ہوئی کہ ان کویہ حکم دیا گیا جاؤ جنت میں جہاں تم پرنہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ تم مغموم ہونگے۔ (معارف القرآن وتفسیر بیان القرآن) اعراف میں کون جائیں گے: حدیث:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تُوضَعُ المَوَازِينُ يوم القيامة، فتوزن الحَسَنَاتُ والسَّيِّئَاتُ، فَمَنْ رَجَحَتْ حَسَنَاتُهُ على سيئاته مِثْقَالَ صُؤَابَةٍ دخل الجَنَّةَ، ومن رَجَحَتْ سيئاته على حَسَنَاتِهِ مِثْقَالَ صُؤَابَةٍ دخل النار، قيل: يارَسُولَ اللَّه؛ فمن استوت حَسَنَاتُهُ وسيئاته؟ قال: أولئك أصحاب الأَعْرَافِ لم يَدْخُلوها وهم يَطْمَعُون۔ (تذکرۃ فی احوال موتی امورالآخرۃ:۳۱۸، بحوالہ مسندخیثمہ بن سلیمانؒ) ترجمہ:روزِ قیامت ترازوئے اعمال کونصب کیا جائے گا اور گناہوں اور نیکیوں کوتولا جائے گا پس جس شخص کی نیکیاں اس کے گناہوں سے جوں کے انڈے کے وزن جتنا بھی بھاری ہوگئیں وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس کی برائیاں اس کی نیکیوں پربھاری ہوگئیں جوں کے انڈہ کے وزن کے برابر بھی وہ دوزخ میں داخل ہوگا؛ عرض کیا گیا یارسول اللہ! پس جس شخص کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوگئیں (وہ کہاں جائیں گے)؟ فرمایا یہی لوگ اصحاب الاعراف ہیں یہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے بلکہ (اس کی) طمع میں ہوں گے۔ اعراف کے دوآدمیوں کا حال: حضرت کعب احبار رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں دوشخص جودنیا میں آپس میں دوست تھے ان میں سے ایک اپنے ساتھی کے پاس سے گزرے گا جس کو دوزخ کی طرف گھسیٹا جارہا ہوگاتواس کا یہ بھائی کہے گا قسم بخدا میرا توایک نیکی کے سوا کچھ نہیں بچا جس سے میں نجات پاسکوں، اے بھائی! یہ تم لے لو اور جومیں دیکھ رہا ہوں تم تواس سے نجات پالو اب تم اور میں اعراف میں رہ لیں گے، حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ان دونوں کے متلق (ہمدردی کے صلہ میں) حکم فرمائیں گے اور ان کوجنت میں داخل کردیا جائے گا۔ (تذکرۃ الیضا بغیر حوالہ) جنت بھرنے کے لیے نئی مخلوق پیدا ہوگی: حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يَبْقَى مِنْ الْجَنَّةِ مَاشَاءَ اللَّهُ أَنْ يَبْقَى ثُمَّ يُنْشِئُ اللَّهُ سُبْحَانَہ لَهَا خَلْقًا مِمَّا يَشَاءُ فَيُسْكِنَهُمْ فَضْلَ الْجَنَّةِ۔ (مسلم، کتاب الجنۃ:۴۰۔ مسندحمیدی:۳/۲۶۵) ترجمہ:جنت میں سے جتنا حصہ اللہ تعالیٰ چاہیں گے خالی رہے گا پھراللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کے لیے ایک مخلوق پیدا کریں گے جس سے چاہیں گے اور ان کوجنت کے فارغ حصہ میں بسادیں گے۔ فائدہ:قیامت کے روز اور جنت میں داخل ہوچکنے کے بعد اہلِ دوزخ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اتنی کثرت سے جنت میں داخلہ کے باوجود جنت پھربھی خالی رہ جائے گی؛ کیونکہ جنت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی انتہاء نہیں اس کویہ مخلوق مکمل طور پر نہیں بھرسکے گی اس لیے اس کوبھرنے کے لیے اللہ نئی مخلوق پیدا کرکے اس میں بسائیں گے۔ مردوں کا حسن وجمال: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس ذات کی قسم جس نے قرآن حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا ہے جنت میں رہنے والے (مرد وعورت، حور ووغلمان کے) حسن وجمال میں اس طرح سے اضافہ ہوتا رہے گا جس طرح سے ان کا دنیا میں (آخر عمر میں) بدصورتی اور بڑھاپے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۱۴۔ صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۲۶۴) ارشادِ خداوندی ہے: كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ (الطور:۲۴) گویا کہ وہ (خدمتگار) لڑکے محفوظ رکھے ہوئے موتی ہیں، اس ارشاد کی تفسیر میں حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عرض کیا گیا یارسول اللہ! یہ تونوکراور خدمتگار ہیں لؤلؤ موتی کی طرح تومخدوم کیسے ہوں گے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدهِ إنَّ فَضْلَ مَابَيْنَهُمَا كَفَضْل الْقَمَر لَيْلَة البَدْر عَلَى النُّجُوْم۔ (درمنثور:۶/۱۱۶، بحوالہ ابن جریر:۲۷/۲۹۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۶۵) ترجمہ:مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ان کے درمیان ایسی فضیلت ہے جیسے چودھویں کے رات کے چاند کی ستاروں پرہوتی ہے۔ حدیث:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنَّ في الجَنَّةِ سُوقاً يَأتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ، وَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ، فَتَحْثُی وُجُوهِهِم وَثِيَابِهِمْ، فَيَزدَادُونَ حُسناً وَجَمَالاً فَيَرْجِعُونَ إلَى أَهْلِيهِمْ، وَقَد ازْدَادُوا حُسْناً وَجَمَالاً، فَيقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ: وَاللهِ لقدِ ازْدَدْتُمْ بَعَدْنَا حُسْناً وَجَمَالاً! فَيقُولُونَ: وَأنْتُنَّ وَاللهِ ازْدَدْتُن حُسْناً وَجَمالاً۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۴۱۷۔ حلیہ ابونعیم:۶/۲۵۳۔ مسلم:۲۸۳۳) ترجمہ:جنت میں ایک بازار ہوگا، جنتی ہرجمعہ کو اس میں آیا کریں گے، شمال سے ایک خوشبو چلے گی جوان کے چہروں اور لباس پرپڑے گی اور یہ حسن وجمال میں بڑھ جائیں گے پھریہ اپنے گھروالوں کے پاس لوٹیں گے جب کہ یہ حسن وجمال میں خوب ترقی کئے ہوئے ہوں گے ان کوان کی بیویاں کہیں گی آپ توہم سے جدا ہونے کے بعد حسن وجمال میں بہت بڑھ گئے ہیں، تویہ مرد کہیں گے آپ بھی توخدا کی قسم حسن وجمال میں بڑھ چکی ہو۔ فائدہ:یہ ہوا مشک کے ٹیلوں سے چلائی جائے گی، جنتی مردوعورتیں ہرگھڑی حسن وجمال میں ترقی کرتے رہیں گے جب ایک دوسرے سے کچھ دیر اوجھل ہوں گے توچونکہ اس حالت میں بھی ان کے حسن وجمال میں اضافہ ہوتا رہے گا اس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے حسن وجمال میں اضافہ کودیکھ کرحیران اور لطف اندوز ہوں گے، جنت کے بازار میں حسن وجمال میں من پسند حسین وجمیل صورتیں بھی ہوں گی جنتی جس صورت کوپسند کریگا اس میں تبدیل ہوسکے گا تفصیل کے لیے اسی کتاب میں جنت کا بازار کا مضمون ملاحظہ کریں۔ حسنِ یوسف: حدیث:حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يُحْشَرُ مَابَيْنَ السِّقْطِ إِلَى الشَّيْخِ الْفَانِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي خَلْقِ آدَمَ، وَقَلْبِ أَيُّوبَ، وَحُسْنِ يُوسُفَ مُرْدًا مُكَحَّلِينَ۔ (البدورالسافرہ:۲۱۶۸۔ البعث والنشور:۴۶۵) ترجمہ:ضائع ہونے والے بچے سے لیکر بوڑھے تک (مؤمن) قیامت کے دن حضرت آدم کی صورت، حضرت ایوب کے دل اور حضرت یوسف کے حسن پربغیرداڑھی کے آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔ جنت میں صرف حضرت آدم اور موسیٰ علیہما السلام کی ڈاڑھی ہوگی: حدیث:حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ليس أحد من أهل الجنة إلايدعى باسمه إلاآدم عليه السلام فإنه يكنى أبا محمد، وليس أحد من أهل الجنة إلاوهم جرد مرد إلاماكان من موسى بن عمران فإن لحيته تبلغ سرته۔ (البدورالسافرہ:۲۱۷۲۔ہامش صفۃ الجنۃ لابی نعیم:۲/۱۱۰) ترجمہ:جنت والوں میں ہرشخص کواس کے نام سے بلایا جائے گا؛ مگرحضرت آدم علیہ السلام کوابومحمد کی کنیت کے ساتھ پکارا جائے گا اور جنت میں سب بغیربالوں کے بغیرداڑھی کے ہوں گے سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان کے داڑھی ان کی ناف تک پہنچتی ہوگی۔ فائدہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت والوں کے جسم پربال نہیں ہوں گے مگرموسیٰ بن عمران علیہ السلام کے ان کی داڑھی ان کی ناف تک پہنچتی ہوگی اور سب جنتیوں کوان کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا؛ مگرحضرت آدم علیہ السلام کوان کی کنیت ابومحمد ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۱۱۱) چونکہ بچپن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے وقت کے سب سے بڑے دشمنِ خدا فرعون کی داڑھی کوکھینچا تھا اس کی قدردانی اور حضرت موسیٰ کے اعزاز کے لیے جنت میں داڑھی عطاء کرکے دوام بخشا ہوگا، واللہ اعلم (امداداللہ) حضرت کعب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ جنت میں کسی کی داڑھی سیاہ ہوگی اور ناف تک پہنچتی ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کی داڑھی نہیں آئی تھی بلکہ داڑھی حضرت آدم کے بعد سے اترنا شروع ہوئی ہے اور کسی کی کنیت باقی نہ رہے گی؛ سوائے حضرت آدم کے کہ ان کی کنیت ابومحمد ہوگی۔ (البدور السافرہ:۲۱۷۳، بحوالہ ابن عساکر) حضرت ہارون علیہ السلام کی بھی داڑھی ہوگی: علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنت میں تمام مردبغیر داڑھی کے ہوں گے سوائے حضرت ہارون علیہ السلام کے کیونکہ ان کی داڑھی سب سے پہلی داڑھی ہے جس کواللہ کے راستہ میں اذیت دی گئی تھی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَاتَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَابِرَأْسِي۔ (طٰہٰ:۹۴) ترجمہ:فرمایا اے میرے ماں جائے میری ڈاڑھی اور سر سے نہ پکڑ۔ فائدہ: مذکورہ روایات سے فرداً فرداً ثابت ہوتا ہے کہ تمام انسانوں میں سے صرف تین انبیاء علیہم السلام کی داڑھی ہوگی، واللہ اعلم۔ تاج کی شان وشوکت: حدیث:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ عَلَيْهِمْ التِّيجَانَ إِنَّ أَدْنَى لُؤْلُؤَةٍ مِنْهَا لَتُضِيءُ مَابَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔ (ترمذی،كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ مَالِأَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ الْكَرَامَةِ،حدیث نمبر:۲۴۸۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنتیوں پرتاج سجے ہوں گے ان میں سے (ہرایک تاج کا) ادنی درجہ کا موتی وہ ہوگا جومشرق ومغرب کے درمیان فاصلہ کوروشن کرتا ہوگا۔ فائدہ:قیامت کے روز اور جنت میں داخل ہوچکنے کے بعد اہلِ دوزخ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اتنی کثرت سے جنت میں داخلہ کے باوجود جنت پھربھی خالی رہ جائے گی؛ کیونکہ جنت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی انتہاء نہیں اس کویہ مخلوق مکمل طور پر نہیں بھرسکے گی اس لیے اس کوبھرنے کے لیے اللہ نئی مخلوق پیدا کرکے اس میں بسائیں گے۔