انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ترک وطن ۱۳۲ھ میں جب خلافت بنو امیہ کا خاتمہ ہوکر خلافت عباسیہ شروع ہوئی تو عبدالرحمن بن عماویہ کی عمر بیس سال کے قریب تھی ،دریائے فرات کے کنارےعبدالرحمن کی ایک جاگیر تھی،جب عباسی لشکر ملک شام میں داخل ہوکر دمشق پر قابض ومتصرف ہوا اور بنو امیہ کا قتل عام ہونے لگا تو اس زمانے میں عبدالرحمن بن معاویہ دمشق میں موجود نہ تھا بلکہ اپنی جاگیر کہ گاؤں میں آیا ہوا تھا ،عبدالرحمن کو جب یہ معلومہوا کہ بنو امیہ اور ان کے ہمدردوں کو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے تو وہ احتیاط کی نظر سے گاؤں کے باہر درختوں کے کنج میں خیمہ نصب کرکے رہنے لگا کیونکہ گاؤں پر اگر کوئی آفت آئے تو خطرہ سے واقف ہوکر اپنی جان بچانے کی فکر کرسکے۔ ایک روز اپنے خیمہ میں بیٹھا تھا کہ اس کا تین چار سال کا لڑکاجو باہر کھیل رہا تھاخوف زدہ ہوکر خیمہ کے اندر آیا ،عبدالرحمن اس کے خوف زدہ ہونے کا سبب معلوم کرنے کے لیے خیمہ سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ عباسیوں کا سیاہ جھنڈا ہوا میں لہرارہا ہے اور اس کی جانب آرہا ہے ،تمام گاؤں میں ہل چل مچی ہوئی ہے یہ دیکھ کر کہ عباسی لشکر بنو امیہ کو قتل کرنے کو پہنچ گیا ہے وہ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھاکردریا کی طرف بھاگا ابھی وہ دریا تک نہ پہنچنے پایا تھا کہ دشمنوں نے اس کا تعاقب کیا اور چلاچلا کر کہنے لگے کہ تم بھاگو مت ہم تم کو کوئی آزار نہ پہنچائیں گے اور ہر طرح تمہاری امداد واعانت بجالائیں گے،عبدالرحمن کے پیچھے پیچھے اس کا بھائی بھی تھا ،عبدالرحمن نے دشمنوں کی ان باتوں کی جانب مطلق التفات نہ کیا اور وہ دریا میں کود پڑا،عبدالرحمن کا بھائی تشفی آمیز باتوں سے فریب کھاکر دریا کے کنارےکھڑا ہوکر اور رک کر کچھ سوچنے اور پیچھے کو دیکھنے لگا،دشمنوں نے فوراً پہنچتے ہی اس کا سر تلوار سے اڑادیا،عبدالرحمن نے مطلق پس وپیش نے کیااور دریا میں تیرتا ہوااپنے بیٹے کو چھاتی سے لگائےہوئےدریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا،دشمنوں نے دریا میں تیرنے کی جرأت نہ کی بلکہ اسی کنارے پر کھڑے ہوئے تماشہ دیکھتے رہے۔