انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ٌٌٌدورثانی کے رجال الحدیث تابعین کرام میں جو حضرات اس میدان میں زیادہ پیش پیش رہے،حضرت امام شافعیؒ کے ایک بیان میں ان کا ذکر مختلف شہروں کے اعتبار سے اس طرح ملتا ہے، یہ بحث امام شافعیؒ نے خبر واحد کی حجیت کے ذیل میں لکھی ہے: میں نے مدینہ منورہ و مکہ، یمن و شام و کوفہ کے حضرات ذیل کو دیکھا کہ وہ آنحضرتﷺ کے ایک صحابی سے روایت کرتے تھے اور صرف اس ایک صحابی کی حدیث سے ایک سنت ثابت ہوجاتی تھی، اہل مدینہ کے چند نام یہ ہیں محمد بن جبیرؓ، نافع بن جبیرؓ، یزید بن طلحہؓ، نافع بن عجیرؓ، ابوسلمہ بن عبدالرحمنؓ، حمید بن عبدالرحمنؓ، خارجہ بن یزیدؓ، عبدالرحمن بن کعبؓ، عبداللہ بن ابی قتادہؓ، سلیمان بن یسارؓ، عطاء بن یسارؓ وغیرہم اور اہل مکہ کے چند اسماء حسب ذیل ہیں: عطاء، طاؤس، مجاہد، ابن ابی ملیکہ، عکرمہ بن خالد، عبید اللہ بن ابی یزید، عبداللہ بن باباہ، ابن ابی عمار، محمد بن منکدر وغیرہم اوراسی طرح یمن میں وہب بن منبہ اور شام میں مکحول اور بصرہ میں عبدالرحمن بن غنم، حسن اورمحمد بن سیرین کوفہ میں اسود، علقمہ اور شعبی۔ غرض تمام بلاد اسلامیہ اسی پر تھے ؛کہ خبر واحد حجت ہے؛ اگر بالفرض کسی خاص مسئلہ کے متعلق کسی کے لیے یہ کہنا جائز ہوتا کہ اس پر مسلمانوں کا ہمیشہ اجماع رہا ہے تو خبر واحد کی حجیت کے متعلق بھی میں یہ لفظ کہہ دیتا؛ مگر احتیاط کے خلاف سمجھ کر اتنا پھر بھی کہتا ہوں کہ میرے علم میں فقہاء مسلمین میں سے کسی کا اس میں اختلاف نہیں ہے۔ (ترجمان السنہ:۱/۱۷۶) ان کے علاوہ بھی اس دور کی عظیم تعداد ہے جن سے ہزاروں روایات آگے چلیں، یہ سب حضرات رجال الحدیث تھے، جن کی سندیں آگے چلیں، جہاں تک فقہ حدیث اور علم کا تعلق ہے علامہ شعبی(۱۰۳ھ) فرماتے ہیں ؛کہ صحابہ کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگردوں سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی نہ تھا، حضرت ابو زعۃ الدمشقی لکھتے ہیں: میں نے علامہ شعبی کو کہتے سنا کہ آنحضرتﷺ کے صحابہ کے بعد کوئی طبقہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے اصحاب سے زیادہ فقہیہ نہیں تھا۔ (تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی،باب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۱/۹۶) امام ابو حنیفہؒ اس دور کے اکابر مجتہدین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "فاذا انتھی الامر وجاء الامر الی ابراھیم والشعبی وابن سیرین والحسن وعطاء وسعید بن المسیب وعدد رجالافقوم اجتھدوا فاجتھد کما اجتھدوا"۔ (تاریخ یحییٰ بن معین:۲/۶۰۸،طبع: سنہ۱۳۹۹ھ ،مکہ مکرمہ) ترجمہ: جب معاملہ ابراہیم نخعی،علامہ شعبی، امام محمد بن سیرین حسن بصری، حضرت عطاء بن ابی رباح اور،حضرت سعید بن المسیب تک پہنچے اورآپ نے کئی اور بھی نام لیے تو یہ وہ لوگ تھے جو مجتہد تھے سو میں بھی اجتہاد سے کام لیتا ہوں جیسا کہ یہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔ یہ حضرات اپنے دور کے ائمہ علم تھے، رجال الحدیث ان کے علاوہ ہزاروں وہ لوگ بھی تھے جو مجتہدین کے درجہ کے نہ تھے؛لیکن رواۃ حدیث میں خاصے معروف تھے،یہاں تک کہ آگے تبع تابعین میں ہزاروں رجال حدیث میدان علم میں آگئے، یہی تین طبقے تھے جن کے اہل ہونے کی خود لسان شریعت نے خبر دی تھی "خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم" ان خیر القرون کے بعد رجال حدیث محض زبانوں پر نہ رہے، کتابوں میں آنے لگے اور حدیث کی کتابیں متون احادیث اوران کی اسانید کے ساتھ مرتب ہونے لگیں، اس دور میں صداقت وثقافت غالب تھی اور رجال الحدیث کی باضابطہ جانچ پڑتال کی چنداں ضرورت نہ پڑتی تھی؛ لیکن جب فتنے پھیلنے شروع ہوئے اور بدعات کا شیوع ہواتو اسا نید پر باقاعدہ نظر کی ضرورت سمجھی گئی،یہاں تک کہ آگے چل کر اسماء الرجال کا علم ایک مستقل فن کی شکل اختیار کرگیا۔