انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کعبہ کی کنجی طبقات ابن سعد میں ہے حضرت عثمان بن طلحہؓ کہتے ہیں ہم ایام جاہلیت میں کعبہ کا دروازہ ہفتہ میں دودن یعنی پیر اور جمعرات کو کھولا کرتے تھے اور دنوں میں کعبہ کا دروازہ بند رہتا تھا،ایک دن نبی کریمﷺ اپنے چند ہمراہیوں کو لے کر کعبہ میں داخل ہونے کی غرض سے تشریف لائے تو میں نے آپﷺ سے سخت کلامی اور ترش روئی کا برتاؤ کیا؛ مگر رسول اللہﷺ نے اپنے ضبط اور حلم کا ثبوت دیا اور فرمایا اے عثمان ایک دن تو اس کعبہ کی کنجی میرے ہاتھ میں دیکھے گا کہ میں جسے چاہوں اس کو دیدوں، میں نے کہا کیا اس دن قریش مرجائیں گے اور ذلیل ہوجائیں گے، اس دروازے کی کنجی تمہارے ہاتھ میں چلی جائے گی، آپﷺ نے فرمایا نہیں! اس دن قریش کو اور زیادہ عزت حاصل ہوگی، پھر آپﷺ کعبہ میں داخل ہوئے، مگر آپﷺ کی بات نے میرے دل پر ایسا اثر کیا اور میں سمجھا کہ ایک دن یہ بات ضرور ہونے والی ہے، پھر فتح مکہ کے بعد آپﷺ نے اس دروازے کی کنجی مجھ سے منگوائی ،میں نے خدمت میں حاضر کردی، آپﷺ نے وہ کنجی پھر مجھے ہی واپس کردی اور فرمایا یہ کنجی لو یہ قیامت تک تمہارے ہی خاندان میں رہے گی ،تم سے سوائے ظالم اور جابر کے کوئی نہیں چھینےگا ،جب میں واپس چلنے لگا تو پھر مجھ کو بلاکر فرمایا: اس دن کی بات یاد ہے جو میں نے تم سے کہی تھی کہ کعبہ کی کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جس کو چاہوں گا دونگا، میں نے عرض کیا: یقیناً جو آپﷺ نے کہا تھا وہی ہوا، میں گواہی دیتا ہوں کے بیشک آپﷺ اللہ تبارک وتعالی کے سچے رسول ہیں ۔ اس واقعہ میں نبی کریمﷺ کی دو پیشن گوئیاں تھیں جو پوری ہوئیں ایک یہ کہ اس کی کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی، دوسری یہ کہ قیامت تک اب یہ کنجی تیرے ہی خاندان میں رہے گی ،پہلی بات آپﷺ نے ہجرت سے پہلے فرمائی تھی اور دوسری فتح مکہ کے دن ارشاد فرمائی تھی جس دن کنجی منگاکر اور اپنے ہاتھ میں لے کر عثمان بن طلحہؓ کے سپرد فرمائی اور آج تک کعبہ کی کنجی ان کے خاندان میں ہے اور وہی کعبہ کے دروازے کو کھولتے اور بند کرتے ہیں۔