انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** (۴)علم حدیث اور علم رجال احادیث جمع کرنے والے ائمہ حدیث اپنی پوری احتیاط اورضبط وعدالت کے باوجود آخر تھے تو انسان ہی؛ انہوں نے نہ چاہا کہ دین پیغمبر کی پوری ذمہ داری اپنے سرلیں؛ انہوں نے جو روایتیں لکھیں انہیں انہوں نے ان اساتذہ کا نام لے کر روایت کیا جن سے انہوں نے وہ روایات سنی تھیں اور پھر ان کی سند بھی پیش کردی جس سے وہ اس بات کو حضورﷺ یا صحابہ کرام تک پہنچاتے رہے۔ جب حدیث کے ذکر میں سند ساتھ آنے لگی تو ضروری تھاکہ پڑھنے والوں پر ان راویوں کا حال بھی کھلا ہو جو اس حدیث کو آگے لانے کی ذمہ داری لیےہوئے ہیں، سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے،سند کو پہچاننا بھی ضروری ہے کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا،امام علی بن المدینی(۲۳۴ھ) کہتے ہیں: "الفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم و معرفۃ الرجال نصف العلم"۔ (مقدمہ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:۴) ترجمہ :معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔