انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جنگ نہروان حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خوارج کے کوفے سے خارج ہونے کے بعد اہلِ کوفہ کو جنگ شام کے لئے ترغیب دی،انہوں نے یہی مقدم سمجھا تھا کہ امیر معاویہؓ کو ملکِ شام سے بے دخل کیا جائے، خوارج کے فتنہ کو وہ زیادہ اہم اور شام کی مہم پر مقدم نہیں کرنا چاہتے تھے؛چنانچہ انہوں نے بصرہ کی جانب عبداللہ بن عباسؓ کے پاس خط بھیجا کہ جنگِ شام کے لئے جس قدر فوج ممکن ہو روانہ کردو،بصرہ سے بھی خوارج چونکہ خارج ہوچکے تھے لہذا ان کے اس اخراج کو غنیمت سمجھا گیا کہ نہ یہ لوگ شہر میں ہوں گے نہ فساد برپا کریں گے،بصرے میں اس وقت ساٹھ ہزار جنگ جو موجود تھے، لیکن جب عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت علیؓ کا خط لوگوں کو سُنایا اورشام پر حملہ آور ہونے کے لئے ترغیب دی تو بڑی مشکل سے صرف تین ہزار ایک سو آدمی جانے کے لئے تیار ہوئے،باقی سب نے اس کان سُنا اوراُس کان اُڑادیا،کوفے میں بھی لوگوں پر سرد لہری چھائی ہوئی تھی،جب بصرہ کی یہ تین ہزار فوج حارثہ بن قدامہ کی سرداری میں کوفے پہنچی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اہل کوفہ کو جمع کرکے خطبہ دیا اورلوگوں کو لڑائی کے لئے آمادہ کیا،آخر کوفے والے آمادہ ہوگئے۔ چالیس ہزار سے زیادہ لشکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہوگیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے مناسب سمجھا کہ خوارج کو بھی ایک مرتبہ پھر اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دیں؛چنانچہ انہوں نے نہروان میں عبداللہ بن وہب کے پاس ایک خط بھیجا اورلکھا کہ تم لوگ شامیوں سے جنگ کرنے کے لئے ہمارے پاس چلے آؤ،ہم اُسی پہلی رائے پر اوراہلِ شام سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں،عبداللہ بن وہب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ خط اپنے ساتھیوں کو سُنایا اورسب کے مشورے سے جواب لکھا کہ: ’’تم نے حکمین کا تقرر خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کیا تھا اوراب جو اہلِ شام سے لڑائی کا ارادہ کررہے ہو،یہ بھی اپنے نفس کی خواہش سے کررہے ہو،اگر تم اپنے کافر ہونے کا اقرار کرنے کے بعد توبہ کرو تو ہم تمہاری مدد کو تیار ہیں نہیں تو ہم تم سے لڑنے کو آمادہ ہیں‘‘۔ اس خط کے آنے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خوارج کی طرف سے مایوسی ہوگئی،مگر انہوں نے ملکِ شام پر چڑھائی کرنے کے ارادے کو فسخ نہیں کیا،حضرت علیؓ کی تمام تر کوشش خوارج کو راہِ راست پر لانے میں صرف ہوئی، لیکن وہ کسی طرح مصالحت کی جانب نہ آئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب ان سے یہ کہتے تھے کہ تم ہی لوگوں نے تو مجھ کو لڑائی بند کرنے کے لئے مجبور کیا تھا،اب تم کس منھ سے مجھ کو ملزم قرار دیتے ہو؟تو وہ کہتے تھے کہ ہم اپنی خطا اورغلطی کو تسلیم کرتے ہیں ،تم بھی اپنی خطا کو تسلیم کرو،ہم مانتے ہیں کہ ہم غلطی کرکے کافر ہوگئے تھے لیکن توبہ کرکے مسلمان ہوگئے، اسی طرح تم بھی توبہ کرکے مسلمان ہوجاؤ تاکہ ہم اپنا فتویٰ جو تمہارے کفر کی نسبت صادر کرچکے ہیں،واپس لے لیں،نہیں تو ہم تم کو کافر یقین کرتے ہوئے تمہارے خلاف جہاد کریں گے۔ ان مجنونانہ باتوں کی طرف سے چشم پوشی اختیار کرکے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ملکِ شام پر حملہ آور ہونے کے لئے روانہ ہونے ہی کو تھے کہ حضرت عبداللہ بن خبابؓ صحابی کے شہید ہونے کی خبر پہنچی، جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن خبابؓ کسی سفر میں تھے کہ نہروان کے قریب ہوکر گذرے اورخوارج کی ایک جماعت کو معلوم ہوا کہ یہ صحابی ہیں،انہوں نے آکر سوال کیا کہ آپ ابوبکرؓ وعمرؓ کی نسبت کیا کہتے ہیں، حضرت عبداللہ بن خبابؓ نے جواب دیا کہ وہ دونوں بہت اچھے اور خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اورنیک بندے تھے، پھر خوارج نے دریافت کیا،آپ ؓ عثمان غنیؓ کی خلافت کے اوّل اورآخر زمانے کی نسبت کیا کہتے ہیں، حضرت عبداللہ بن خبابؓ نے جواب دیا کہ وہ اول سے آخر تک حق پرست اورحق پسند تھے، پھر خوارج نے پوچھا کہ علیؓ کی نسبت حکمین کے مقرر کرنے سے پہلے اور حکمین کے مقرر کرنے کے بعد آپ ؓ کا کیا خیال ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ حضرت علیؓ تم لوگوں سے زیادہ خدا اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سمجھنے اوراُس پر عمل کرنے والے ہیں،خوارج نے یہ سنتے ہی طیش میں آکر حضرت عبداللہ بن خباب اور اُن کی بیوی اوراُن کے ہمراہیوں کو قتل کرڈالا،حضرت علیؓ نے جب یہ خبر سُنی تو تحقیقِ حال کے لئے حرث بن مرہ کو روانہ کیا خوارج نے اُن کو بھی مارڈالا،ساتھ ہی خبر پہنچی کہ خوارج بلا دریغ ہر اُس شخص کو جو اُن کا ہم خیال وہم عقیدہ نہ ہو قتل کر ڈالتے ہیں،اب اُن لوگوں کو جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں تھے،یہ فکر ہوئی کہ ہم اگر شام کے ملک کی طرف گئے تو خوارج کوفہ وبصرہ وغیرہ تمام عراق پر قابض ومتصرف ہوکر ہمارے اہل وعیال کو قتل کردیں گے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی یہ خیال کیا کہ اگر خوارج نے کوفہ وبصرہ پر قبضہ کرلیا تو پھر ملکِ شام پر حملہ آوری بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہوگی؛چنانچہ جنگِ شام کو ملتوی کرکے خوارج کی طرف کوچ اورلشکرِ خوارج کے قریب پہنچ کر اُن کے پاس پیغام بھیجا کہ: ’’تم میں سے جن لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیا ہے،اُن کو ہمارے سپرد کردو تاکہ ہم اُن کو قصاص میں قتل کردیں اور تم کو تمہارے حال پر چھوڑ کر اہلِ شام کی طرف روانہ ہوں،اس عرصہ میں جب تک کہ ہم جنگِ اہلِ شام سے فارغ ہوں ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ تم کو راہِ راست پر لے آئے‘‘۔ اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کئی بزرگ صحابیوں کو یکے بعد دیگرے خوارج کو نصیحت اوروعظ وپند کرنے کے لئے روانہ کیا اورخوارج کے وفود کو بُلا کر خود بھی نصیحت کی کہ غلطی حکمین کے مقرر کرنے میں اگر ہوئی تو باعثِ اصلی تم ہی لوگ تھے،اب جو کچھ گزرا اس کو فراموش کردو اورہمارے ساتھ شامل ہوکر اہلِ شام سے لڑنے کو چلو،خوارج نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ بے شک ہم لوگوں نے خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی اور کافر ہوئے،لیکن توبہ کرکے پھر مسلمان ہوگئے،اب تم بھی جب تک گناہ کا اقرر کرکے توبہ نہ کروگے،کافر رہو گے اور ہم تمہاری مخالفت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے تھے کہ میں اللہ پر ایمان لایا ہجرت کی،خدا کی راہ میں جہاد کیا،میں کس طرح اپنے آپ کو کافر کہوں،آخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود لشکر خوارج کے قریب تشریف لے گئے اوران لوگوں کووعظ وپند فرمانے لگے،خوارج کے سرداروں نے یہ دیکھ کر کہ ہمارے عوام پر کہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تقریر کا اثر نہ ہوجائےبلند آواز سے اپنے لوگوں کو ہدایت کی کہ: ’’علیؓ کی باتوں کو ہرگز ہرگزنہ سُنو نہ اُن سے باتیں کرو ؛بلکہ اللہ کی ملاقات کے لئے دوڑو یعنی لڑائی شروع کردو‘‘۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت علیؓ واپس تشریف لے آئے اوراپنے لشکر کو مرتب فرما کر ہر حصہ پر سردار مقرر کئے اورحضرت ابو ایوب انصاریؓ کو امان کا جھنڈا دے کر فرمایا کہ تم اس جھنڈے کو لے کر ایک بلند مقام پر کھڑے ہوجاؤ اوربلند آواز سے اعلان کردو کہ جو شخص بغیر جنگ کئے ہوئے چلا آئے گا اس کو امن دی جائے گی او جو شخص کوفہ یا مدائن کی طرف چلا جائے گا،وہ بھی محفوظ رہے گا، اس اعلان کو سُن کر خوارج کے لشکر سے ابن نوفل اشجعی پانسوسواروں کے ساتھ جدا ہوگیا،کچھ لوگ کوفہ کی طرف چل دیئے کچھ مدائن کی طرف روانہ ہوئے،کچھ امیر المومنین حضرت علیؓ کے لشکر میں شامل ہوگئے، غرض خوارج کے لشکر میں ایک تہائی سے بھی کم آدمی باقی رہ گئے،اُن پر حملہ کیا گیا اور سب کو گھیر کر تہ تیغ کیا،عبداللہ بن وہب،زید بن زہیر،عبداللہ بن شجر،شریح بن اوفی وغیرہ خوارج کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے،صرف نو آدمی خوارج کے زندہ بچ کر فرار ہوئے باقی سب میدانِ جنگ میں لڑکر مارے گئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ خارجیوں کی لاشوں کو بغیر دفن کئے ہوئے اسی طرح میدان میں چھوڑ کر وہاں سے واپس ہوئے۔ اس لڑائی میں بظاہر خارجیوں کا پورے طور پر استیصال ہوچکا تھا اوراب کوئی خطرہ اُن کی طرف سے باقی نہ رہا تھا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگ نہروان سے فارغ ہوکر ملکِ شام کا عزم فرمایا تو اشعث بن قیس نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ فی الحال چند روز کے لئے شام کے قصد کو ملتوی کرکے لشکر کو آرام کرنے کا موقع دیجئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس بات کو نا پسند فرمایا اورمقام نخیلہ میں آکر قیام کیا اورحکم دیا کہ کوئی شخص کوفہ میں نہ جائے،جب تک اہل شام پر فتح مند نہ ہوکر واپس آئے نخیلہ کے قیام میں لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور لشکر گاہ کو خالی دیکھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس طرح لشکر گاہ کو خالی دیکھ کر خود بھی کوفہ میں تشریف لے آئے اور سرداروں کو جمع کرکے اس سُستی اورتن آسانی کی وجہ دریافت کی،بہت ہی کم لوگوں نے شام پر حملہ آوری کے لئے آمادگی ظاہر کی،باقی خاموش رہے، پھر حضرت علیؓ نے تمام لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی اور اُن کو جنگِ شام کے لئے ترغیب دی،مگر سب نے خاموشی سے اس تقریر کو سُنا اورکسی قسم کی آمادگی ومستعدی کا مطلق اظہار نہ کیا،حضرت علی کرم اللہ وجہہ لوگوں کی اس سرد مہری کو دیکھ کر مجبوراً خاموش ہوگئے اورملکِ شام پر حملہ آور نہ ہوسکے۔