انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** محمد بن ادریس ۲۱۳ھ میں ادریس اصغر نے وفات پائی اوراُس کا بیٹا محمد اپنے باپ کی جگہ تخت نشین ہوا،یہ وہ زمانہ تھا کہ ادریس اول کا حقیقی بھائی سلیمان بن عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی طالب مصر وافریقہ میں ہوتا ہوا تلمسان پہنچ گیا تھا،اُس نے جب اپنے آپ کو ادریس اوّل کا حقیقی بھائی ظاہر کیا تو وہاں کے بربری قبائل نے بخوشی اُس کی بیعت کرلی اوراُس کی حکومت تلمسان میں قائم ہوگئی۔ ادھر ادریس اصغر کی ماں اورمحمد بن ادریس کی وادی کنزہ نے کہا کہ تنہا محمد ہی کو تمام ممالک مقبوضہ کی حکومت نہ دی جائے؛بلکہ محمد کے دوسرے بھائیوں کو بھی ایک ایک حصہ کی حکومت دی جائے؛چنانچہ کنیزہ کی تجویز کے موافق محمد بن ادریس اصغرتو فاس اوراُس کے نواحی علاقے کا فرماں روا قرار دیا گیا اوراُس کے بھائیوں میں سے قاسم کو طنجہ، سیوطہ،طیطوان کی عمر کو تبکیسان ترغہ اور قبائل منہاجہ وغمارہ کی حکومت دی گئی ،داؤد کو بلاد،ہوارہ،مائلسول،تازی اورقبائل مکناسہ وغیاثہ دئیے گئے،عبداللہ کو باغمات، نفیس ،جبال،مضامدہ،بلادلمطہ،موس الاقصیٰ دیئے گئے،یحییٰ کو باصیلا،عرایش بلا دروغہ دئیے گئے،عیسیٰ کوشالہ،سلا،ازمور اورتامنا کی حکومت ملی،حمزہ کو بولیلی اوراُس کے مضافات سپرد ہوئے، باقی صغیر السن لڑکے اپنی دادی کنیزہ کی کفالت ونگرانی میں رہے،تلمسان پر سلیمان بن عبداللہ قبضہ کرہی چکا تھا،اس طرح ایک عورت کی رائے پر عمل کرکے اراکین سلطنت نے مراقش کی ایک زبردست سلطنت کو چند چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا،چند روز کے بعد عیسیٰ نے ازمور سے اپنے بھائی محمد بن ادریس پر فوج کشی کی،محمد نے اپنے بھائی قاسم کو اس مہم پر جانے کا حکم دیا، مگر قاسم نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کیا، تب محمد نے عمر کو عیٰسی کے مقابلے پر روانہ کیا،عمر نے عیسیٰ کو شکست دے کر اس کے تمام مقبوضہ ملک کو اپنی ریاست میں شامل کرلیا اورمحمد نے عمر کو بخوشی ایسا کرنے دیا، اس کے بعد محمد نے عمر کو حکم دیا کہ وہ قاسم کو بھی تادیب کرے جس نے محمد کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا۔ عمر نے قاسم پر فوج کشی کی،سخت لڑائی ہوئی، قاسم نے شکست کھاکر گوشہ نشینی اورزہد وعبادت میں اپنی بقیہ زندگی بسر کردی اورعمر نے قاسم کی ریاست کو بھی اپنے مقبوضہ ملک میں شامل کرلیا، اس طرح عمر کی سلطنت بہت وسیع ہوگئی،مگر وہ ہمیشہ اپنے بھائی محمد کی اطاعت کا اقرار کرتا رہا،۲۲۰ھ میں عمر کا انتقال ہوا اور محمد نے اُس کے بیٹے علی بن عمر کو سندِ حکومت عطا کرکے اُس کے باپ کی جگہ مامور کیا۔