انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۹۴۔ابو عثمان نہدیؒ نام ونسب عبدالرحمن نام،ابو عثمان کنیت،کنیت ہی سے مشہور ہیں،نسب نامہ یہ ہے،عبدالرحمن ابن مل بن عمروبن عدی بن وہب بن ربیعہ بن سعد بن خزیمہ بن کعب بن رفاعہ بن مالک بن نہدا بن زید بن لیث بن سود بن اسلم بن الحاف بن قضاعہ۔ اسلام ابو عثمان نے جاہلیت اوراسلام دونوں کا زمانہ پایا تھا (تہذیب التہذیب:۶/۲۷۷)زمانہ جاہلیت میں عام عربوں کی طرح بتوں کی پرستش کرتے تھے،عہد رسالت میں اسلام قبول کیا لیکن آنحضرت ﷺ کی زیارت سے محروم رہے،لیکن صدقات برابر آنحضرت ﷺ کے تحصیلداروں کو ادا کرتے تھے۔ (تاریخ خطیب:۱۰/۲۰۴) عہد فاروقی عہد صدیقی میں ان کا پتہ نہیں چلتا، حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں مدینہ آئے اورعراق کی اکثر مہموں قادسیہ ،جلولاء،نہاوند،سروند،یرموک وغیرہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی تھی۔ (تاریخ خطیب:۱۰/۲۰۸) فضل وکمال علمی اعتبار سے کوئی ممتاز شخصیت نہ رکھتے تھے،لیکن سلمان فارسیؓ کی صحبت میں بارہ سال رہے تھے (شذرات الذہب،ج اول،ص۱۱۸) ان کے فیض صحبت سے اتنا علم حاصل ہوگیا تھا کہ علماء میں شمار ہوتا تھا۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۵۰) حدیث حدیث میں حضرت عمرؓ،علیؓ،سعدؓ،سعیدؓ،طلحہؓ،سلمان فارسیؓ،ابن مسعودؓ،حذیفہؓ،ابوذرؓ،ابی بن کعبؓ،اسامہ بن زیدؓ،بلالؓ،حنظلہ کاتبؓ،ابو سعید خدریؓ اورابو موسیٰ اشعریؓ جیسے اکابر صحابہ سے ان کی روایات ملتی ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۶/۲۷۸) ثابت البنانی،قتادہؓ،عاصم الاحول،سلیمان التیمی،خالد الخداء،ایوب سختیانی اورحمید الطویل جیسے ممتاز علماء ان کے فیض یافتہ تھے۔ (ایضاً) عبادت وریاضت ابو عثمان کا امتیازی وصف ان کی عبادت وریاضت اوران کا زہد وتقویٰ تھا،اس میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز شخصیت رکھتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ عالم قائم اللیل اورصائم النہار تھے،نمازیں اتنی پڑھتے تھے کہ بے ہوش ہو ہوجاتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۵۶) ان کا دامن کسی معصیت سے آلودہ نہیں ہوا،ان کے تلمیذ سلیمان التیمی کا بیان ہے کہ جہاں تک میرا خیال ہے،ان سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ (ایضاً) ذکر خدا فرماتے تھے میں جانتا ہوں کہ خدا مجھے کس وقت یاد کرتا ہے کس نے پوچھا کیسے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :اذکرونی اذکرکم اس لیے جب میں اس کو یاد کرتا ہوں تو وہ بھی مجھے یاد کرتا ہے اورجب ہم اس سے دعا کرتے ہیں تو اس کی قسم وہ قبول کرتا ہے،پھر فرماتا ہے۔ اہل بیت نبوی سے عقیدت اہل بیت کرام سے اتنی عقیدت تھی کہ کوفہ وطن تھا،لیکن جب حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو کوفہ چھوڑ کر بصرہ کی سکونت اختیار کرلی اور فرمایا میں ایسے شہر میں نہیں رہ سکتا،جس میں رسول اللہ ﷺ کا نواسہ شہید کیا گیا ہو۔ (ایضاً:۷۰) وفات سنہ وفات کے بارہ میں اختلاف ہے بروایت صحیح ۱۰۰ یا اس کے لگ بھگ انتقال فرمایا،اس وقت ایک سو تیس سال کی عمر تھی۔ (تاریخ خطیب:۱۰/۲۰۵)