انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حیات طیبہ۶۲۲ء بیعت عقبہ ثانی اس سال حج کے لئے یثرب سے پانچ سو زائرین آئے جن میں( ۷۳) مرد اور (۲) عورتیں مسلمان تھیں، مقصد یہ تھا کہ جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا وہ اس دولت سے مشرف ہوں اور جو اسلام قبول کر چکے تھے وہ آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام سے وفا داری اور آپﷺ پر جاں نثاری کا پختہ عہد کریں اور حضورﷺ کو مکّہ سے ہجرت فرما کر مدینہ میں قیام کی دعوت دیں، اس قافلہ نے منیٰ میں قیام کیا اورخفیہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کو اپنے ارادہ سے مطلع کیا ، چنانچہ رات میں اسی قدیم گھاٹی عقبہ میں حضورﷺ سے بیعت کا اہتمام کیا گیا، دو عورتوں میں ایک بنی مازن بن نجار کی حضرت نسیبہ ؓ بنت کعب تھیں جو اپنی کنیت اُمِّ عمارہ کے نام سے مشہور تھیں اور دوسری خاتون بنی سلمہ کی حضرت اسماء ؓ بنت عمرو اُمِّ منیع تھیں،حضورﷺ کے ساتھ آپﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی آئے تھے،یہ اگر چہ ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے مگر حضورﷺ پر جان چھڑکتے تھے انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا : " اے لوگو تم نے محمد ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت تودی مگر سُن لو کہ وہ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ معزز ہیں ، جو لوگ ان پر ایمان لائے وہ بھی ان کے لئے سینہ سپر رہتے ہیں اور جو ایمان نہیں لائے وہ بھی خاندانی عز ت و شرف کی وجہ سے ان کی حمایت کرتے ہیں، محمد ﷺ نے سب کو چھوڑکر تمہارے ساتھ رہنا منظور کیا ہے، لہٰذا اگر تم اپنے اندر ان کی حفاظت و مدافعت کی طاقت پاتے ہو اور ان کی خاطر سارے عر ب کی دشمنی مول لینے کے لئے تیار ہو تو اچھی طرح آپس میں مشورہ کر کے بات طئے کر لو اور وہی بات کہو جس پر سب کااتفاق ہو جائے کیونکہ سچی بات ہی اچھی ہوتی ہے" حضرت عباسؓ کی یہ تقریر سن کر رئیس خزرج برأ بن معرور نے کہا : اے عباسؓ ! تم نے جو کچھ کہا ہم نہ وہ سنا ، ہم نے و ہی کہاجو ہمارے دل میں ہے ، ہم نے راست گوئی ، ایفائے عہداور حضورﷺ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ( طبقات ابن سعد بحوالہ سیرت طیبہ از زین العا بدین سجاد میرٹھی) پھر دوسروں نے کہا :یا رسول اللہ ہم ہر طرح حاضر ہیں، آپﷺ جو چاہیں ہم سے عہد لیں،یہ سن کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی کچھ آیات تلاوت فرمائیں اور تعلیمات اسلام پیش کیں، پھر فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت و حمایت کرتے ہو اسی طرح میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت و نصرت کا وعدہ کرو،برأ بن معرور کہنے لگے :یارسول اللہ ! قسم ہے اس ذات ِ پاک کی جس نے آپﷺکو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حمایت و حفاظت کرتے ہیں آپﷺ کی بھی کریں گے،یا رسول اللہ ! دستِ مبارک بڑھائیے اور ہم سے بیعت لیجئے، ہم میدانِ جنگ کے شہسوار ہیں،مگر ابو الہشیم بن التیہان نے ان کی بات کاٹ دی اور کہنے لگے :یا رسو ل اللہ ہمارے یہودیوں سے کچھ تعلقات ہیں،حضورﷺ سے وابستگی کے بعد یہ تعلقات ختم ہو جائیں گے ، ایسا نہ ہو کہ جب اللہ تعالیٰ آپ کو قوت و طاقت عطا فرمائے تو ( آپﷺ کی قوم آپﷺ کو بلا لے اور ) آپﷺ ان کے پاس لوٹ جائیں اور ہم کو چھوڑ دیں،حضورﷺ نے مسکرا کر فرمایا: نہیں! تمہا را خون میرا خون ہے، تم میرے ہو اور میں تمہارا، تمہاری اور میری صلح و جنگ ایک ہے ، ( سیرت ابن ہشام ، بحوالہ سیرت طیبہ، قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی) اس گفتگو کے بعد حاضرین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے، بیعت کے دوران عباس بن عبادہ انصاری نے کہا :اے گروہ خزرج اچھی طرح سمجھ لو کہ تم کس چیز پر بیعت کر رہے ہو، تم عرب و عجم سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو، سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا: ہاں ہم اسی پر بیعت کر رہے ہیں ، ہماری جان اور مال حضورﷺ کے لئے حاضر ہے ،حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ ہم آپﷺ سے کس بات پر بیعت کریں ، آپﷺ نے فرمایا: ۱) خوشی اور ناخوشی ہر حال میں سمع و طاعت کرنا، ۲) تنگ دستی و خوشحالی میں اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا، ۳) نیک کام کرنے کی تلقین اور برے کام کے روکنے کی تاکید کرنا، ۴) اﷲ کے دین میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرنا، ۵) جب حضوراکرم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ چلے آئیں تو آپﷺ کی ایسی حفاظت کرنا جیسی اپنے جان و مال اور اہل و عیال کی کرتے ہیں اور صلہ جنت ہے۔ ابن اسحا ق کی روایت ہے کہ بنو نجار کہتے ہیں کہ ابو امامہ اسعد بن زرارہ ؓ سب سے پہلے آدمی ہیں حضور ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کی اور اس کے بعد بیعت عامہ ہوئی، حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک کرکے اٹھے اور حضور ﷺ نے ان سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی،دو عورتیں جو اس وقت وہاں حاضر تھیں ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی ، حضور ﷺ نے کسی اجنبی عورت سے ہاتھ نہیں ملایا،ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ عبدالاشہل کہتے ہیں کہ ابوالہشیم بن التیہان نے بیعت کی اور حضرت کعبؓ بن مالک کہتے ہیں کہ براء بن معرور نے سب سے پہلے بیعت کی ( ابن اسحاق - علامہ ابن کثیر) الغرض اسی جو ش و خروش کی فضا میں ( ۷۵) فدائیان مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی، یہ بیعت عقبہ ثانیہ یا بیعت عقبہ کبیرہ کہلاتی ہے جو ذی الحجہ ۱۳ نبوت مطابق جو ن یا جولائی ۶۲۲ ء میں ہوئی۔